دفاع وطن کے لیے 3 بیٹوں کی قربانی دینے والے غازی صوبیدار نور افضل

جمعہ 6 ستمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میانوالی شہر سے 65 کلومیٹر دور پہاڑوں کے دامن میں واقع گاؤں ٹولہ منگلی کے قبرستان میں پاکستان کے لیے جان قربان کرنے والے 100سے زائد  افراد کی قبریں موجود ہیں، ان میں کچھ 2 سگے بھائیوں کی قبریں بھی موجود ہیں، جو پاکستان کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، ان میں کئی شہدا ایسے بھی ہیں جو کارگل کی جنگ، آپریشن ضرب عضب، آپریشن رد الفساد، میران شاہ کے آپریشنز اور جنوبی وزیرستان اور بلوچستان میں  دہشتگردوں کے خلاف دوسری فوجی کاروائیوں میں جان سے گئے، اسی قبرستان میں جنگ 1965 اور 1971 کے شہدا کی قبریں بھی موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: شہدا اور غازی ہمارے قومی ہیرو، مادر وطن کے دفاع سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، آرمی چیف

گاؤں ٹولہ منگلی سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ صوبیدار نور افضل بھی ایسے والد ہیں جو خود بھی 1971 کی جنگ میں حصہ لے چکے ہیں، ان کے 3 بیٹے بھی دہشتگردی کی جنگ میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں، یہ اس گاؤں کے ایسے والد ہیں جنہوں نے دفاع وطن کے لیے 3 بیٹوں کی قربانی دی مگر ان کا عزم و حوصلہ اب بھی جوان ہے۔

3 بیٹے اور 2 بھانجے ملک پر قربان ہوئے‘

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے صوبیدار (ر) نور افضل کا کہنا تھا کہ میری عمر 68 سال ہے، میں نے پاک فوج میں 25 سال سروس کی ہے، میرے 5 بیٹے ہیں جن میں سے سب سے پہلا بیٹا ظفراقبال شہید 2006 میں بلوچستان کے علاقہ ڈیرہ بگٹی میں بم دھماکے میں شہید ہوا، دوسرا بیٹا واجد خان 2009 میں مہمند ایجنسی میں طالبان کے خلاف لڑائی میں مارٹر گولہ لگنے سے جام شہادت نوش کر گیا، جبکہ تیسرا بیٹا محمد ریاض جو 26 اگست 2024 کو بلوچستان میں مچھ کے مقام پر دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ بنا۔

یہ بھی پڑھیں: ملکی سالمیت اور خودمختاری کے دفاع کے لیے پوری طرح تیار ہیں، آرمی چیف

 ’سب سے پہلے شہید بیٹے ظفر اقبال کی 4 بیٹیاں ہیں، واجد شہید غیر شادی شدہ تھا جبکہ حال ہی میں شہید ہونے والے محمد ریاض کی ایک بیٹی اور 3 بیٹے ہیں ، ایک بیٹا ڈیڑھ ماہ قبل ایف سی بلوچستان سے مدت ملازمت ختم کرکے ریٹائر ہوا ہے، جبکہ 5واں بیٹا بھی ایف سی بلوچستان میں خدمات سر انجام دے رہا ہے۔‘

صوبیدار (ر) نور افضل کے 2 سگے بھانجے جمشید خان اور ایاز خان بھی ایف سی بلوچستان میں فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید ہو گئے تھے، اس طرح اس گھر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے گھر کے 5 افراد جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔

صوبیدار (ر) نور افضل نے بتایا کہ ملک و قوم کے لیے میں 3 بیٹے  اور 2 بھانجے تو قربان کر ہی چکا ہوں مگر مزید بھی اگر پاکستان کو کسی بھی قسم کی قربانی کی ضرورت پڑی تو میرا خاندان اور میرے باقی بچے بھی کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

’ہمارے سینے دفاع وطن کے لیے اب بھی حاضر ہیں

2006 میں شہید ہونے والے ظفراقبال کی صاحبزادی مریم نے بتایا ’میں اس وقت بہت چھوٹی تھی جب میرے والد ظفر اقبال شہید ہوئے، ہمارے سینے دفاع وطن کے لیے اب بھی حاضر ہیں، مگر ہمیں اس علاقے میں حکومت نے کوئی سہولت نہیں دی، یہاں کالج اور اسپتال نہیں ہے، سڑکیں اور سلنگ نہیں ہے جس کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: یکم ستمبر 1965: پاک بھارت جنگ کے پہلے روز کیا ہوا؟

مریم نے بتایا کہ انہیں تعلیم کے حصول کے لیے 65 کلو میٹر دور میانوالی جانا پڑتا ہے جہاں بہت سارے اخراجات ہوجاتے ہیں۔انہوں نے آرمی چیف سے اپیل ہے کہ یہاں سہولیات فراہم کی جائیں۔

’اس گاؤں میں 100 سے زائد شہدا کی قبریں موجود ہیں

شہدا ویلفئیر ٹرسٹ ٹولہ منگلی کے چئیرمین ڈاکٹر نصیر الرحمان خٹک نے بتایا کہ ٹولہ منگلی گاؤں میانوالی کا واحد گاؤں ہے جہاں 100 سے زائد شہدا کی قبریں موجود ہیں، یہ سب شہدا دفاع وطن کی خاطر مختلف جنگوں اور دہشتگردی کے خلاف محاذوں پر شہید ہوئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp