حکومت سندھ کے لگژری گاڑیاں خریدنے کے فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔ جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق اور دیگر نے فیصلے کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی۔
درخواست گزار کے وکیل عثمان فاروق ایڈووکیٹ کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے بیوروکریسی کے لیے 138 بڑی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں۔ ان گاڑیوں کی خریداری کے لیے تقریباً 2 ارب روپے کے اخراجات ہوں گے۔ 3 ستمبر کو اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کیا جاچکا ہے۔ یہ گاڑیاں عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں کی آمدنی سے خریدی جائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ کے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے لگژری گاڑیوں کی منظوری
دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک میں انفلیشن کی شرح 28فیصد سے زیادہ ہے، صوبے میں عوام کو صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ عوام کے ٹیکس کے پیسے کو عوام کی بہبود کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ بیوروکریسی کے لیے ڈبل کیبن گاڑیاں خریدنے سے عوام کا کوئی فائدہ نہیں۔
عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے یہ عوامی پیسے کا بے جا استعمال ہے۔ تین ستمبر کے گاڑیاں خریدنے سے متعلق نوٹیفکیشن کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے۔ عدالتی فیصلے تک نوٹیفکیشن پر عمل درآمد معطل کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:خیبرپختونخوا: وزیر اعلیٰ کی مشیر مشال یوسفزئی کی ایک کروڑ 71 لاکھ کی نئی گاڑی کا معاملہ کیا ہے؟
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں سندھ حکومت نے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے لگژری گاڑیاں خریدنے کے لیے محکمہ خزانہ سے پونے 2 ارب کی خطیر رقم مانگی تھی۔
محکمہ جنرل ایڈمنسٹریشن سندھ نے صوبائی محکمہ خزانہ کو خط لکھا تھا، جس میں صوبائی حکومت کی جانب سے محکمہ خزانہ سے اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے گاڑیاں خریدنے کی مد میں پونے 2 ارب روپے مانگے گئے تھے۔
خط میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت صوبے میں تعینات اسسٹنٹ کمشنرز کے لیے 4 بائی 4 کی 138 ڈبل کیبن گاڑیاں خریدنا چاہتی ہے جس کے لیے ایک ارب 99 کروڑ، 10 لاکھ 800 روپے جاری کیے جائیں۔
سندھ حکومت کی جانب سےخریدی جانے والی ایک گاڑی کی قیمت ایک کروڑ روپے سے زائد ہے، رواں مالی سال کےبجٹ میں گاڑیوں کی خریداری کے لیے رقم مختص کی گئی تھی۔