نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے لندن میں ایک تقریب سے خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دورحکومت میں آئی ایم ایف چاہتا تھا پاکستان ڈيفالٹ کر جائے، اس دور میں ہمارے ریویو ہی نہيں چل رہے تھے۔
بعد ازاں لندن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کنا تھا کہ یکم اکتوبر کو پاکستان قومی ایئرلائن(پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے بڈز موصول ہوں گی، دور برطانیہ انتہائی کامیاب رہا، جس میں حکومت برطانیہ کے ساتھ پی آئی اے کی پروازوں کا معاملہ بھی اٹھایا ہے، دونوں ممالک کے انتہائی خوشگوار تعلقات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی دولت مشترکہ کی سیکریٹری جنرل سے ملاقات
ہفتہ کے روز لندن میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اور برطانیہ کے تعلقات انتہائی خوشگوار ہیں، میرا دورہ برطانیہ انتہائی مفید اور کامیاب رہا ہے، 17 لاکھ پاکستانی برطانیہ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کے برطانیہ کے ساتھ تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یکم اکتوبر سے پی آئی اے کی نجکاری کی بولی آئے گی، تاہم انہوں نے اپنے دورہ برطانیہ کے دوران اپنے ہم منصب سے پاکستان ایئرلائنز کی پروازوں سے متعلق بات چیت کی ہے، دوران سفر بھی مسافروں نے پی آئی اے کی پروازوں کا معاملہ اٹھایا۔
اسحاق ڈار نے بتایا کہ انہوں نے ڈیوڈ لیمس کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی ہے جو انہوں نے قبول کر لی ہے، وہ اور ان کے دیگر ساتھی جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے 7 رکنی کمیٹی کی تشکیل،اسحاق ڈار چیئرمین ہونگے
انہوں نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ پی آئی اے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گا اور اس کے لیے حکومتی اہم اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اسلام آباد کے ایئرپورٹ کو بھی آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت برطانیہ کے لیے پی آئی اے کی پروازیں بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے، پاکستان برطانیہ کے ساتھ اپنے دیرینہ اتحاد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ حکومت برطانیہ سے آنے اور جانے والی پروازوں کو جلد از جلد بحال کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
لندن میں مقیم پاکستانیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم نے پی آئی اے کی پروازوں کی بحالی کے معاملے کو حل کرنے کے لیے برطانیہ کی ایوی ایشن اتھارٹی کی تازہ ترین ضروریات کے مطابق قوانین میں تبدیلی کی ہے۔ پی آئی اے کی پروازوں کی بحالی کے لیے برطانیہ کی حکومت کے ساتھ تکنیکی سطح پر مل کر کام کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
مزید پڑھیے: جس نے بھی ملک کے ساتھ غداری کی اس کا انجام بڑا بھیانک ہوا، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے ایک وزیر کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی وجہ سے یورپ، برطانیہ اور مغربی دنیا میں پرواز کرنے والے تمام پاکستانی طیاروں کو گراؤنڈ کردیا گیا۔ اسحاق ڈار کے مطابق حکومت اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو آؤٹ سورس کرنے اور پی آئی اے کی نجکاری کرنے پر غور کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور یہ اگلے مہینے کی 10 تاریخ تک مکمل ہوسکتا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان برطانیہ کے ساتھ اپنے دیرینہ اتحاد کو بہت اہمیت دیتا ہے اور پاکستانی تارکین وطن دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات کے حقیقی نمائندوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ، کشمیر اور اسلام فوبیا پر پاکستان اپنی آواز بلند کرتا رہے گا ، اسلام فوبیا کے خلاف پاکستان نے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سیکیورٹی کونسل کا 2 سال کے لیے غیر مستقل ممبر منتخب ہو چکا ہے، پاکستان مسئلہ فلسطین پر اپنا واضح مؤقف رکھتا ہے، غزہ میں اسرائیلی بمباری بند ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: ناراضی کے نام پر دہشتگردی قبول نہیں، نوجوان ہر قسم کی انتہاپسندی کو مسترد کردیں، اسحاق ڈار
پاکستان نے غزہ میں کئی امدادی کھیپ بھیجی ہیں، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فلسطین کے میڈیکل کے طلبا کی تعلیم جو ادھوری رہ گئی ہے اسے ہم پاکستان میں مکمل کروائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر اور فلسطین میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے، ہم نے برطانوی حکام سے جموں کشمیر اور فلسطین کے مسئلے پر بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ برطانیہ میں مقیم پاکستانی سب سے زیادہ ملک کے لیے مؤثر اور متحرک ثابت ہوئے ہیں جو نہ صرف میزبان ملک بلکہ پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ برٹش پاکستانی کمیونٹی بھی برطانیہ میں اوورسیز کمیونٹیز میں سیاسی طور پر ایک متحرک کمیونٹی ہے۔ ہمارے پاس کابینہ کے دو ارکان، ہاؤس آف کامنز میں 15 ارکان، ہاؤس آف لارڈز میں 11 ارکان اور سینکڑوں کونسلرز اور میئرز اور ڈپٹی میئرز ہیں۔
2013 میں ملک کی بدترین معاشی اور سیکیورٹی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ بڑے بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کی معیشت کو سیاسی طور پر غیر مستحکم ملک قرار دے رہے ہیں اور اسے 6 ماہ کے اندر ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ یہ بھی پیش کر رہے تھے کہ معاشی دلدل سے نکلنے میں ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تلخیاں بھلا کر قوم کو آگے لے جانے کی ضرورت ہے، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آنے کے صرف ڈیڑھ سال بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملکی معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غذائی افراط زر ڈبل ڈیجٹ سے صرف 2 فیصد تک واپس آ گیا ہے جبکہ جی ڈی پی گروتھ 6 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایشیا کی بہترین سٹاک مارکیٹ اور دنیا کی پانچویں بہترین سٹاک مارکیٹ بن گیا۔
انہوں نے کہا کہ 2017 تک پاکستان 24 ویں عالمی معیشت بن گیا تھا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ 2018 کے بعد کے دور میں آنے والی حکومت کی خراب حکمرانی کے نتیجے میں 2022 میں پاکستان کیا یہ درجہ 47 تک چلا گیا۔
دہشتگردی کے حوالے سے نائب وزیراعظم نے کہا کہ 2013 میں معیشت، انتہا پسندی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ 3 سب سے بڑے چیلنجز تھے جن پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنی محنت اور دانشمندانہ پالیسیوں کی بدولت قابو پایا ہے۔
نائب وزیر اعظم نے 2022 میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے پالیسی میں تبدیلی پر مایوسی کا اظہار کیا جس کی وجہ سے تشدد اور دہشتگردی ملک میں واپس آئی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی افغانستان میں مقیم عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی کے نتیجے میں 102 خطرناک مجرموں کو جیلوں سے رہا کیا گیا ہے جو مالاکنڈ میں اسکول کے بچوں کے قتل اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی میں ملوث تھے۔ اسحاق ڈار نے ملک سے دہشتگردی کو دوبارہ جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے حکومتی عزم کا اظہار کیا۔
قومی اسمبلی میں اوورسیز پاکستانیز کو نمائندگی دینے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی، اس کے لیے بھی مشاورت جاری ہے، اس کے علاوہ اوورسیز فاؤنڈیش کے ساتھ مل کرتارکین وطن کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق قبل ازیں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے دورحکومت میں آئی ایم ایف چاہتا تھا پاکستان ڈيفالٹ کر جائے، اس دور میں ہمارے ریویو ہی نہيں چل رہے تھے۔