یہ بات میرے لیے ہمیشہ سے تجسس کا باعث رہی کہ دنیا کے عظیم مصنفین کا ادب کی طرف جھکاؤ کیسے ہوا؟ بچپن یا نوجوانی میں ان کے اندر مطالعہ کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ اور انہوں نے کب اور کیسے اچھا ادب پڑھنا شروع کیا؟ اس سلسلے میں ممتاز مصنفین کے انٹرویوز اور آپ بیتیوں کو کھنگالا تو کئی دلچسپ واقعات اور باتیں نظر سے گزریں۔
اٹلی سے تعلق رکھنے والے ممتاز دانشور اور مصنف امبرٹو ایکوجن کی وجہ شہرت ناول نگاری ہے، انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران اس ضمن میں بہت خوبصورت باتیں کیں۔ادب اور مطالعہ کی طرف ان کی رغبت اپنے دادا اور والد کے سبب ہوئی جنہیں کتابوں سے عشق تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے دادا کے میری زندگی پر کافی اثرات ہیں، اگرچہ میں ان سے زیادہ نہیں ملتا تھا کیونکہ وہ قصبے سے کوئی 3 میل دور رہتے تھے اور جب ان کی وفات ہوئی اس وقت میری عمر 6 سال تھی۔وہ دنیا کے بارے میں کافی متجسس تھے اور بہت مطالعہ کرتے تھے۔
“حیران کن بات یہ ہے کہ میرے دادا جب ریٹائر ہوئے تو انہوں نے کتابوں کی جلد سازی کا کام شروع کر دیا۔ سو ان کے گھر میں ادھر ادھر کتابیں بکھری پڑی ہوتی تھیں، پرانی، خوبصورت اور انیسویں صدی کے معروف ایڈیشن۔ وہ پہلی کتابیں تھیں جو میں نے دیکھیں۔ جب 1938میں دادا کاانتقال ہوا تو غیر جلد شدہ کئی کتب کے مالکان نے کتب کی واپسی کا مطالبہ نہ کیا اور ہمارے خاندان نے انہیں ایک بڑے ڈبے میں ڈال کر ایک طرف رکھ دیا۔ اتفاق سے یہ ڈبہ میرے والدین کے گودام میں رکھ دیا گیا۔ اکثر مجھے ہی گودام میں بھیجا جاتا، کبھی کوئلہ لینے کبھی وائن لینے اور اسی دوران ایک دن میں نے وہ ڈبہ کھولا تو کتابوں کا وہ خزانہ ہاتھ لگا۔ اس کے بعد میں اس گودام میں اکثر جانے لگا۔ میرے دادا نے کچھ عمدہ رسالے بھی اکٹھے کیے تھے اور یہی میرا کہانیوں سے پہلا تعارف تھا۔ بدقسمتی سے میں نے وہ سب کتب اور رسالے گنوا دیے لیکن دہائیوں کے بعد میں نے آخرکار ان کی کاپیاں پرانی کتابوں کی دکانوں سے ڈھونڈ نکالی ہیں۔”
یعنی ایکو نے اس وقت تک بہت کم کتب دیکھی تھیں۔ وہ اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں،’’ یہ عجیب بات ہے، میرے والد جب جوان تھے تو بہت پڑھتے تھے۔ میرے دادا دادی کے ہاں 13 بچے تھے، خاندان کی گزر بسر مشکل سے ہوتی تھی، میرے والد کتب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، سو وہ کتابوں کے کھوکھے پر جاتے اور کھڑے کھڑے کتابوں کا مطالعہ کرتے۔ جب مالک تنگ آجاتا تو میرے والد اگلے کھوکھے پر چلے جاتے اور وہی کتاب تلاش کر کے اگلا باب وہاں پڑھنے لگتے اور اسی طرح سلسلہ چلتا رہتا۔ یہ وہ تصور ہے جو میرے پاس خزانہ ہے۔ میرے والد کے پاس صرف شام کا وقت ہوتا تھا اور وہ زیادہ تر اخبارات اور رسالے پڑھتے تھے۔ ہمارے گھر میں چند ناول تھے لیکن وہ کتابوں کے شیلف میں نہ تھے، وہ ایک بند الماری میں تھے۔ کبھی کبھار انہیں اپنے دوستوں سے مستعار ناول پڑھتے دیکھا۔ وہ بہت جلد وفات پا گئے تھے لیکن میری چند کتب شائع ہونے سے پہلے نہیں۔ یہ نصابی قسم کا کام تھا اور شاید میرے والد کے لیے الجھن کا باعث تھا لیکن میں نے دیکھا کہ وہ شام کے وقت انہیں پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ’اوپن ورک‘ ان کی وفات سے 6 ماہ قبل شائع ہوئی جس پر عظیم شاعر یوگینیو مونٹیل نے تبصرہ کیا تھا۔ یہ ایک طرح سے دوستانہ اور شرارتی قسم کا تبصرہ تھا لیکن یہ بالآخر مونٹیل کا تبصرہ تھا اور میرے والد کے لیے اس سے زیادہ سوچنا بھی ممکن نہ تھا۔ میں نے ایک طرح سے ان کا قرض اتارا ہے اور آخر میں لگتا ہے کہ میں نے ان کے خواب پورے کیے ہیں، اگرچہ میں سوچتا ہوں کہ وہ میرے ناول زیاد ہ خوشی سے پڑھتے۔‘‘
اور والدہ کی سادگی کے بارے میں ایکو کے خوبصورت الفاظ کچھ یوں تھے، ’’والد کی وفات کے بعد میری والدہ 10 برس زندہ رہیں سو وہ جانتی تھیں کہ میں نے کئی اور کتابیں بھی لکھی ہیں اور یہ بھی کہ مجھے باہر کی یونیورسٹیوں میں لیکچر کے لیے بلایا گیا، وہ بہت بیمار تھیں لیکن بہت خوش تھیں، اگرچہ میرا نہیں خیال کہ انہیں معلوم تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ایک ماں اپنے بیٹے پر فخر کرتی ہے ،چاہے بیٹا بے وقوف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘