عمران خان کا اسرائیل سے لینا دینا کیا ہے؟ یہ باتیں ہمارے بزرگ ایک زمانہ پہلے کہہ چکے ہیں لیکن ان پر یقین نہ کیا گیا۔ اب یہ ثبوت خود اسرائیل سے میسر آ گیا ہے لیکن ٹھہریے، پہلے ایک پرانی یاد کو تازہ کرتے ہیں۔
ہمارے یہاں ایک بزرگ ہوا کرتے تھے، عنایت اللہ۔ پاکستان میں ڈائجسٹ صحافت کے عروج کے زمانے میں انہوں نے ’حکایت‘ نام سے ایک ڈائجسٹ جاری کیا۔ جن لوگوں نے یہ ماہنامہ پڑھا اور اس سے لطف اندوز ہوئے، ممکن ہے کہ ان میں سے کچھ اب بھی مل جائیں لیکن جن لوگوں نے ایک سلسلہ کتاب ’داستان ایمان فروشوں کی‘ پڑھی ہو گی، ایسے لوگوں کی ایک معقول تعداد آج بھی دستیاب ہوگی۔
اس کتاب کا جادو کیسے سر چڑھ کر بولا، اس کا اندازہ یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ مختار مسعود جیسے نفیس اور محتاط ادیب کے ہاں بھی اس کتاب کا تذکرہ ملتا ہے اور کیوں نہ ملتا۔ یہ کتاب تھی ہی ایسی۔ بیت المقدس پر قبضے کی جنگوں، جنہیں بالعموم صلیبی جنگوں کے نام سے بھی یاد کیا گیا، عبد الحلیم شرر سمیت بہت سے ادیبوں نے خامہ فرسائی کی ہے۔
لیکن ماضی قریب میں اس موضوع پر جس ادیب نے کمال دکھایا، عنایت اللہ ان میں نمایاں ترین نظر آئے۔ انہوں نے التمش کے قلمی نام سے یہ قصہ کیا لکھا گویا جادو کر دیا۔ ان کہانیوں کا بہت اہم اور غیر معمولی کردار عورتیں ہوا کرتی تھیں جو صلاح الدین ایوبی کے لشکر میں کسی نہ کسی طرح جگہ بنا کر راز چراتیں اور اپنے محبوب جرنیلوں کا ذہن بدل کر مسلمان قوتوں کو اندر سے کمزور کر دیتیں۔
نہیں معلوم یہ ان کہانیوں کا اثر تھا یا ہماری ذہنی ساخت ہی ایسی تھی کہ ہم تسلیم کرتے تھے کہ دشمن کے خلاف عورتوں کا استعمال ایک مؤثر حکمت عملی ہے اور صلیبی جنگوں میں اسے مسلمانوں کے خلاف بڑی مہارت سے استعمال کیا گیا۔
کوئی 3 ساڑھے 3 دہائی قبل ہمارے سماج میں بھی اس حکمت عملی کی گونج سنائی دی۔ یہ کم و بیش وہی زمانہ تھا جب عمران خان کرکٹ سے فراغت کے بعد ملک کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر نمایاں ہو رہے تھے۔
اس زمانے میں 3 بزرگوں نے ہمیں اس خطرے سے ایک بار پھر آگاہ کیا اور بتایا کہ اسرائیل ہمارے ہاں نقب لگا رہا ہے۔ اس سلسلے میں حکیم محمد سعید شہید، مجید نظامی مرحوم اور ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے نام لیے جاتے ہیں۔
ان 3 بزرگوں میں سے حکیم محمد سعید کی کتاب ’جاپان کہانی‘ تو میرے پاس موجود ہے جس میں انہوں نے اس سازش سے پردہ اٹھایا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی گفتگو بھی یو ٹیوب پر سنی جا سکتی ہے۔ البتہ مجید نظامی صاحب کے افکار اس ضمن میں کیا رہے ہیں، میں ان تک ابھی تک نہیں پہنچ سکا۔
خیر، اگر ان تک رسائی ہو بھی جاتی تو شاید کوئی فرق نہ پڑتا کیوں کہ جو لوگ ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے، تو پھر نہیں رکھتے۔ وہ انہیں پروپیگنڈا قرار دیتے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں دینی طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نے سوال کیا کہ کیا حکیم سعید کو اس سلسلے میں کوئی الہام ہوا تھا یا ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی ٹھوس ثبوت بھی تھا؟
واقعہ یہ ہے کہ حکیم سعید درد دل رکھنے والے ایک بیدار مغز دانش ور تھے جو واقعاتِ عالم سے نہ صرف مسلسل با خبر رہتے بلکہ اہل وطن کو بھی ان سے آگاہ کرنے میں دیر نہ کرتے۔ کراچی پریس کلب میں مجھے ان کی ایک تقریر آج بھی یاد ہے جو بدقسمتی سے ان کی آخری تقریر ثابت ہوئی۔
اس تقریر میں انہوں نے قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے بڑی دل سوزی کے ساتھ آگاہ کیا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف نسخے بیچنے والے دوا ساز ہی نہیں تھے بلکہ کھلی آنکھیں رکھنے والے درد مند دل بھی رکھتے تھے۔ یہ حکیم سعید ہی تھے جنہوں نے عمران خان کی صورت میں ابھاری جانے والی شخصیت کے مقاصد اور طریقہ کار سے قوم کو بروقت آگاہ کیا۔
ہماری قوم کی یہ بد نصیبی ہے کہ ہم لوگوں نے اپنے ایسے بزرگوں کو ہمیشہ جھٹلایا اور ڈٹ کر غلطی کی لیکن یہ بھی قدرت کا انتظام ہے کہ اس سازش کے منصوبے کی گواہی خود اسرائیل سے میسر آ گئی ہے۔ اسرائیل کا ایک مؤقر ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ نے اسی ماہ یعنی 4 ستمبر (2024) کو ‘An Unlikely Ally: How Imran Khan Could Shape Israeli-Pakistani Relations’
کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں دو ٹوک انداز میں بتایا گیا ہے کہ کیسے عمران خان نے اپنے دور حکومت میں اسرائیلی حکومت کے ساتھ رابطے استوار رکھے اور ان کی طرف سے گولڈ اسمتھ خاندان حکومت اسرائیل کے ساتھ نامہ و پیام کرتا رہا۔
ان پیغامات کے ذریعے عمران خان نے اسرائیلی حکومت کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کتنی یکسو اور سنجیدہ ہے۔
مضمون نگار انور بشیرووا نے لکھا ہے کہ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں علانیہ طور پر تو پاکستان اور اس کے عوام کا اسرائیل مخالف بیانیہ ہی دہرایا لیکن اندر خانے نامہ و پیام بھی جاری رکھا۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے شواہد عمران دور حکومت میں بھی میسر تھے۔ ان کی کابینہ کے بعض ارکان آف دی ریکارڈ بتایا کرتے تھے کہ اس حکومت کا بس نہیں چلتا کہ یہ اسرائیل کو تسلیم کر لے لیکن کھلے بندوں یہ بات کہنے کا حوصلہ اس میں نہیں ہے۔ صرف اتنی بات نہیں ہے۔ ایک طاقت ور لابی بھی اس زمانے میں متحرک تھی۔
اس لابی کے بارے میں حامد میر کئی بار یہ کہہ بھی چکے ہیں کہ صحافیوں کو بلا کر کہا جاتا تھا کہ وہ اس سلسلے میں رائے عامہ ہموار کریں۔
مضمون نگار نے صرف یہ انکشاف نہیں کیا ہے کہ اپنی حکومت کے زمانے میں عمران خان اسرائیل کے ساتھ رابطے میں رہے بلکہ انہوں نے اس کے علاوہ بھی کئی چونکا دینے والی باتیں لکھی ہیں۔ مثلاً انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کو اسرائیل کے حق میں ہموار کرنے کا کارنامہ ان کی سابقہ اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ نے اس وقت انجام دیا جب وہ ان کے عقد میں تھیں۔
وہی صلیبی جنگوں والا نسخہ، انہوں نے لکھا ہے کہ عمران خان مغرب اور اسلامی دنیا کے درمیان فاصلوں کو ختم کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل کے لیے بھی وہ یہی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ اس لیے عمران خان کی اس غیر معمولی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔
مضمون نگار لکھتی ہیں کہ عمران خان کی یہ صلاحیت غیر معمولی ہے کیونکہ جب وہ اقتدار میں تھے اس موقع پر انہوں نے تعلیمی شعبے کے علاوہ خواتین کو با اختیار بنانے کے ضمن میں غیر معمولی خدمات انجام دی تھیں۔ تعلیم کے شعبے میں ان کا کام کیا تھا۔ یہ تو ایک طویل موضوع ہے لیکن خواتین کو با اختیار بنانے کے ضمن میں ان کی پالیسی کا جادو سر چڑھ کر بولا۔
ان کے زمانے میں عورت مارچ کے مواقعوں پر جس قسم کے مظاہرے ہوئے اور جو زبان استعمال کی گئی، وہ سرکاری پالیسی کا نتیجہ تھی لیکن جیسے پی ڈی ایم کی حکومت وجود میں آئی، ہمیشہ کی طرح عورت مارچ تو ہوا لیکن عمران حکومت کے زمانے جیسی منہ زوری کو بریک لگ گئی۔ ’دی اسرائیل ٹائمز‘ کی مضمون نگار اسی ’حسین‘ زمانے کو یاد کرتے ہوئے خواتین کو با اختیار بنانے کی پالیسی کو یاد کر رہی ہیں۔
مضمون نگار لکھتی ہیں کہ موجودہ زمانہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی، اقتصادی اور دیگر حوالوں سے نئی صف بندی کا ہے۔ یہ زمانہ عمران خان کی خصوصی صلاحیتوں سے استفادے کا ہے۔ اس سے بہر طور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وہ نہ صرف پاکستان اور اسرائیل کے درمیان بریک تھرو کر سکتے ہیں بلکہ مسلم دنیا کو بھی اسرائیل کے قریب لا سکتے ہیں۔
وہ لکھتی ہیں کہ اس مقصد کے لیے اسرائیل اور اس کے اتحادی عمران خان کو سیاست اور حکومت میں واپس لانے کے لیے جو بھی کر سکتے ہوں کر گزریں۔ بہ الفاظ دیگر وہ کہہ رہی ہیں کہ دوڑو زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔