وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ شواہد بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل کی طرف جا رہے ہیں۔ فیض حمید کی خواہش ہوگی کہ سارا ملبہ بانی پی ٹی آئی پر ڈالا جائے۔ فوجی اہلکاروں کو ذاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا قانونی کارروائی کو دعوت دیتا ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ فیض حمید گرفتاری کے بعد، بانی پی ٹی آئی کے ساتھ رفاقتوں کے بارے میں بتا رہے ہوں گے۔ فیض حمید کی خواہش ہوگی کہ سارا ملبہ بانی پی ٹی آئی پر ڈالا جائے۔ 9 مئی کو جس شہر میں بھی احتجاج ہوا وہاں خاص طور پر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، ’کچھ افراد ان کو ڈائریکٹ کر رہے تھے، اور ایک پلاننگ کہیں ہوئی تھی‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ لازمی طور پر عمران خان کی ہدایات تھیں، جس طرح آج عمران خان کو رسائی ہے وہ آرٹیکل لکھتا ہے اس کی جانب سے ٹوئٹس ہوتے ہیں، اُس وقت بھی اسے رسائی حاصل تھی اور اس طرح کی رسائی اور پلاننگ صرف ایک فوجی ذہن ہی ترتیب دے سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوگا، عمر ایوب کا دعویٰ
وزیر دفاع نے کہا کہ عمران خان کو اپنا اقتدار چھن جانے کا غم تھا تو دوسرا غم جنرل فیض کو بھی تھا۔ پہلے پانچ کی لسٹ میں ان کا نام تھا، وہ آرمی چیف بننا چاہتے تھے، انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے بھی رابطہ کیا، اور یقین دہانیاں بھی کرائیں کہ اگر آپ مجھے آرمی چیف بنانے کی حمایت کریں گے تو میں وفاداری نبھاؤں گا، انہوں نے کچھ ضمانتیں بھی دیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ان ساری شکایات میں موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کے بعد زیادہ شدت آگئی، اُن کو روکنے کے لیے انہوں نے منصوبہ بنایا کہ پاک فوج میں اندرونی خلفشار اور فوج کی معرفت سے عوام میں خلفشار پھیلائیں اور 9 مئی اس کا ایک بڑا شاخسانہ تھا۔
ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی ایسی حدود کراس کرے جو فوج کے ساتھ تصادم یا پاکستان کی سالمیت کے معاملات کے دائرے میں لے جائے۔ جو بھی ثبوت سامنے آ رہے ہیں ان کے مطابق دن بدن یہ چیز واضح ہوتی جا رہی ہے کہ ان کا ٹرائل وہاں (ملٹری کورٹس) ہوگا۔
مزید پڑھیں:ملٹری ٹرائل شروع ہونے سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے، چیف جسٹس
خواجہ آصف نے کہا کہ جنرل فیض جب سے گرفتار ہوئے ہیں، اب لازمی طور پر جنرل فیض اپنی جو بھی ان کی رفاقت رہی ہے عمران خان صاحب کے ساتھ اس کی داستانیں وہ سنا رہے ہوں گے۔ جنرل فیض کی بھی خواہش ہوگی کہ میں سارا ملبہ کسی اور پر ڈالوں، میں اس سازش میں شریک بھی تھا تو کہیں گے کہ سارے محرکات عمران خان کے تھے، میرے کوئی مقاصد نہیں تھے، وہ وزیراعظم تھا میں ڈی جی آئی ایس آئی تھا میں اس کا حکم مانتا تھا۔
خواجہ آصف کے مطابق دونوں کے پاور سے ہٹنے کے بعد دونوں نے جو کوشش کی ہے ملک پر قبضہ کرنے کی اور فوج میں بغاوت بپا کرنے کی وہ ناکام ہوئی۔ پی ٹی آئی والے کہتے تھے اکتوبر میں ہماری حکومت آرہی ہے، اس کا پس منظر یہ تھا کہ انہوں نے عدلیہ سے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں۔
وزیر دفاع نے ججز کی تعداد بڑھانے کے بل پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ جس ملک کے اندر 27 لاکھ کیسز زیر التوا ہوں اور 140 کے ٹیبل پر آپ کی پوزیشن 130ویں ہو تو میرے خیال میں ججز 21 کی جگہ 50 ہونے چاہئیں تاکہ عوام کو انصاف تیزی کے ساتھ ملے۔ سپریم جوڈیشل کونسل ججز کے نام تجویز کرے گی، وہ نام پارلیمانی کمیٹی میں آئیں گے، کمیٹی ان ناموں کی تقثیق کرے گی، اس کا پورا پراسیس آئینی ہے۔
مزید پڑھیں:ملٹری کورٹس میں 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل کیسے ہوا؟
عمران خان کے نیب افسران کو دھمکیاں دینے کے سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ میری بیگم پر انہوں نے کیس بنایا، میری بیگم نے کم از کم 30 پیشیاں بھگتیں، ’ایناں دی بیگم جیڑی کوئی سپیشل ہے گی اے، آسمان تو آئی دی ہے گی اے‘ لوگوں کے بچوں، بیگمات کا کوئی تقدس نہیں؟ سارا تقدس کیا ان کے گھر پہنچ گیا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ نیب میں ترامیم کا سلسلہ جب شروع ہوا اس وقت پرویز خٹک وزیر دفاع تھے، انہوں نے ہم سے رابطہ کیا ہم نے ان سے اتفاق کیا، اس کی کلیئرنس جنرل فیض کی طرف سے آئی کہ بات چیت شروع کریں، وہ بات چیت اسپیکر اسد قیصر کے گھر ہوتی تھی اور اس کمرے کے باہر 4 بندے آئی ایس آئی کے بیٹھے ہوتے تھے، اس قسم کی قانون سازی ہوتی تھی۔
خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ جنرل فیض قانون سازی، الیکشن اور حکومتی امور کے اتنے حساس معاملات میں مداخلت کرتے تھے تو کیا 9 مئی ان کے بغیر ہوا ہوگا؟ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف، عمران خان سے مذاکرات کے لیے آخری حدوں تک گیا ہے، شہباز شریف نے غیر مشروط آفر کی، لیکن انہوں نے ایک دفعہ بھی سیاسی قوتوں سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔