دفاع اور معیشت

پیر 9 ستمبر 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مضبوط دفاع ہوگا تو ملک بھی محفوظ رہے گا۔ جدید ہتھیار اور جنگی جہاز حاصل کیے اور پھر ایٹمی طاقت بھی بن گئے۔ دہائیوں سے پیٹ کاٹ کر یہ سب کرلیا۔ اپنے بچوں کو اچھی صحت، تعلیم، خوراک نہ دے سکے، مگر وعدہ کیا کہ ملک کی سرحدوں پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ بیرونی اداروں سے قرضے لیے اور پھر وہی قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لیتے آرہے ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف سمیت بعض وزرا رونے رو رہے ہیں کہ حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کے پیسے نہیں ہیں اور تنخواہیں دینے کے لیےانہیں آئی ایم ایف سے بھیک مانگنا پڑ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:تضادات کا بادشاہ

کچھ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے، کیونکہ ہمارے پاس بیرونی ادائیگیوں کے لیے رقم دستیاب نہیں ہے اور کچھ دوست ممالک مزید رول اوور کے لیے رضامند نہیں ہیں۔ اس مشکل وقت میں سارا دارومدار آئی ایم ایف کے پیکج کی منظوری پر ہے۔ بڑی مشکل یہ ہے کہ آئی ایم ایف بھی یقین دہانی چاہتا کہ یا تو پاکستان ادائیگیاں رول اوور کروائے یا ادائیگیوں کے لیے کہیں اور سے بندوبست کرے۔ اسی سلسلے میں چند بینکوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں کہ فائنسنگ خلا پُر کرنے کے لیے ایک ارب ڈالر قرض حاصل کرلیا جائے تاکہ آئی ایم ایف سے اگلی قسط کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:بلوچستان کے بگڑتے حالات

دفاع کو مضبوط کرتے کرتے ہم دیوالیہ ہوگئے۔ مشرقی سرحدوں سے نکل کر ہم اب مغربی سرحدوں کی حفاظت کرنے میں مصروف ہیں۔ بڑے دشمن بھارت کا پاکستان پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا، کیونکہ وہ اپنی معیشت مضبوط سے مضبوط تر بناتا جا رہا ہے۔ اسلامی ممالک اور امریکا جیسی بڑی طاقتیں بھی اب بھارت سے کاروبار کرنا چاہ رہے ہیں۔ جبکہ ہم غیروں کی جنگوں میں مصروف رہے اور اب اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

کبھی ہم جنرل مشرف کو بلوچستان میں حالیہ کشیدگی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، تو کبھی جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض کو افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کے نتیجے میں بڑھنے والے تحریک طالبان پاکستان کے جنگوؤں کے حملوں کا قصوروار سمجھتے ہیں۔ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان حکومت بنتے ہی کابل میں چائے کے ایک کپ نے طوفان کھڑا کر دیا۔ عمران خان حکومت نے اس ’لمحہ فخریہ‘ کے بھرپور مزے لیے، جیسے افغانستان میں اب پاکستان کی اپنی حکومت قائم ہوگئی ہے۔ عمران خان دنیا بھر سے اپیلیں کرتے رہے کہ طالبان کو مالی امداد دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:حماقتیں کب ختم ہوں گی؟

مگر جنرل فیض کا چائے کا ایک کپ اور طالبان حکومت سے مذاکرات کے بعد ٹی ٹی پی کے قیدیوں کی پاکستان واپسی نے پاکستان کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا۔ اب انہیں مغربی سرحدوں پر جاری دہشت گردی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف بلوچستان کے حالات خراب اور عمران خان، جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض نے طالبان سے معاہدے کرکے دہشت گردی میں اضافہ کرنے میں کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ بیرونی قوتوں نے ان فیصلوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

جب ملک کے حالات نارمل ہوں تو بیرونی قوتوں کے لیے قدرے مشکل ہوتا ہے کہ وہ کسی قسم کی مداخلت کرسکیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری اپنی پالیسیاں غیروں کو موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ ہمارے ملک میں امن و امان خراب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہماری پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے دفاع پر اخراجات میں اضافہ کرکے مقروض سے مقروض تر ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:نوازشریف کی خاموشی

اب مسئلہ یہ ہے کہ مقتدرہ میں جو سربراہ آتا ہے وہ اپنی نئی پالیسی پر عمل درآمد شروع کردیتا ہے۔ اگلا سربراہ نئی حکمت عملی کے ساتھ اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ اور ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کا سلسلہ بنگلادیش کے قیام سے لے کر آج تک جاری ہے۔ ہم صرف ملکی دفاع میں مصروف ہیں جبکہ دنیا اپنی معیشت مضبوط کرکے طاقتور بنتی جا رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp