’میں کسی مافیا سے بلیک میل نہیں ہونگا، کسی کو این آر او نہیں دونگا۔ میں انکو رلاؤں گا‘۔ یہ عمران خان کا سب سے پسندیدہ جملہ ہوتا تھا جو وہ اقتدار ملنے سے پہلے اور اقتدار کے دوران بھی ہر جلسے اور میڈیا ٹاک میں دوہراتے تھے۔ جب کہ اپوزیشن کیطرف سے بھی ایک ہی جملہ دوہرایا جاتا تھا کہ ان سے این آر او مانگا بھی کسی نے نہیں۔ عمران خان کے دور اقتدار میں تو ان سے شاید کسی نے این آر او نہیں مانگا۔ جس جس کو جیل بھیجا گیا اس نے ایک سیاسی امتحان سمجھ کر جیل کاٹی۔
لیکن قدرت کا اپنا ایک نظام ہے پوری زندگی این آر او نہ دینے کی دھمکیاں دینے والے کو خود انہی لوگوں کی حکومت سے این آر او مانگنا پڑ گیا جنکو رلانے کا ہمیشہ نعرہ لگاتے آئے۔ اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ جس قانون کی ترمیم کو چوروں اور کرپٹ لوگوں کی کرپشن کا پیسہ بچانے کا قانون کہہ کر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اس کے منظور ہونے کے پہلے دن ہی اسی قانون کے تحت رعایت مانگ لی۔
یہ بھی پڑھیں: پروفیسر ریاض کا اغوا اور سماجی منصفین
ایسا نہیں کہ سیاستدان اپنے کیے گئے وعدوں سے مکرتے نہیں۔ ہر سیاستدان ہزارہا وعدے کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پورے کرتے ہیں لیکن زیادہ تر وہ وعدے ایفا نہیں ہوتے۔ مگر جس شخص کی سیاست کا محور ہی چوروں اور کرپٹ لوگوں کا محاسبہ کرنا اور کرپشن کیخلاف بے لاگ احتساب ہو۔ وہ اگر کسی ایسے قانون کا سہارا لے کر رعایت مانگے جسکو وہ ہمیشہ غلط سمجھتا آیا ہو تو کم از کم یہ ہماری سیاست میں ایک نئی چیز ہے۔ بہرحال عمران خان نے ہمیشہ نئی چیزیں ہی متعارف کروائی ہیں۔ جیسا کہ کرپشن کا خاتمہ کرنے کا وعدہ کیا لیکن الٹا انکی حکومت میں کرپشن میں اضافہ ہوا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشل کی سالانہ corruption perception index میں جب عمران خان کی سنہ 2018 میں حکومت آئی تو پاکستان کی عالمی رینکنگ میں درجہ بندی 117 تھی۔ لیکن سال 2022 میں انکی حکومت کے خاتمے کے وقت پاکستان اس درجہ بندی میں تنزلی کا شکار ہوتے ہوئے 140 ویں درجے تک پہنچ گیا۔ گویا کرپشن کے خاتمے کانعرہ لگانے والی حکومت کے دور میں ملک میں کرپشن مزید بڑھ گئی۔
انکی جماعت کیطرف سے کہا یہ جارہا ہے کہ ایک قانون کا اگر اطلاق ملک بھر میں ہورہا ہے تو عمران خان کیوں نہ مستفید ہوں۔ انکو سمجھنا چاہیے وہ پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں اور ایک بڑا لیڈر ہونے کے ناتے وہ ایک مثال قائم کرتے۔ مگر یہ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ عمران خان سب سے پہلےشخص بن گئے اس قانون کے تحت این آر او لینے میں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب سے یہ توقع نہیں کی جاتی تھی کہ وہ اتنا عرصہ جیل میں کاٹ لیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انکے پاس اسکے علاوہ کوئی چارہ ہے؟
مزید پڑھیے: برطانوی نسلی فسادات اور فیک نیوز
جسطرح عمران خان نے اپنی لیگل ٹیم کے ذریعے نیب کی نئی ترامیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے کیسز ختم کرنے کی درخواست کی ہے اس سے تو بظاہر نظر یہ آرہا ہے کہ خان صاحب نہ صرف جیل سے تنگ آچکے ہیں بلکہ انکو اگر کوئی ڈیل آفر کی جائے تو وہ فوری طور پر اسے قبول کرلیں گے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کیطرف سے فی الحال کوئی ڈیل یا ڈھیل دینے کا اشارہ نہیں ملا۔
عمران خان کا نیب ترامیم کے بعد این آر او لینے کا ایک مقصد تو جیل سے تنگ آنا ہو ہی سکتا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انکے جیل جانے کے بعد انکی پارٹی بھی اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہے۔ پارٹی کا ہر رہنما ایک دوسرے پر شک کرتا ہے۔
جب کہ تمام رہنماؤں کے اپنے اپنے بھی ذاتی مقاصد اور مفادات ہیں۔ اس صورتحال میں خان صاحب جتنا زیادہ عرصہ جیل میں رہیں گے اتنی زیادہ انکی پارٹی انتظامی لحاظ سے کمزور ہوگی۔ آخر کس حد تک کوئی شخص جیل کے اندر رہ کر پارٹی کو کنٹرول کرسکتا ہے؟
مزید پڑھیں: جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل، آگے کیا؟
خان صاحب کو این آر او مانگنے پر صرف ایک صورت میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا اور وہ ہیں انکے ورکرز اور سپورٹرز لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ عمران خان کچھ بھی کرے، وہ دن کو رات کہے تو انکے سپورٹرز رات ہی مان لیں گے۔ اور اب باقاعدہ طور پر این آر او مانگنے کا بھی وہ دفاع کررہے ہیں اس لیے انہیں اپنے اس اصولی مؤقف سے یوٹرن لینے میں کوئی دقت نہیں۔ بس دقت اب دوسری طرف سے ہے کہ آیا وہ این آر او مانگنے کے باوجود دیتے بھی ہیں یا نہیں۔ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔