نائن الیون سے پہلے کے افغانستان کے حوالے سے کچی پکی معلومات یہ تھیں کہ ملا عمر کی شکل میں ایک مسیحا وہاں کا حکمران ہے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں اکثر قبائلی جرگوں میں ملا عمر کے لیے دعاؤں کے سیشن ہوا کرتے تھے لیکن جب وہ سلسلہ ڈیورنڈ لائن کی دوسری طرف آیا تو سب سے پہلا نشانہ وہی جرگہ بنا۔ وقت کے ساتھ چیزیں بدلتی گئیں اور اسی وجہ سے خیبرپختونخوا کے پشتون گزشتہ 25 سالوں سے ایک نا پسندیدہ جنگ کے شکار ہیں۔ جبکہ پاکستان کے بقیہ علاقے بھی اثرات سے محفوظ نہیں رہے۔
نائن الیون سے پہلے کے افغانستان کے بارے میں بس یہی رائے تھی کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ایک تباہ حال ملک ہے جو روس کی بربریت کا شکار رہا لیکن ہمیں ماننا پڑے گا کہ گزشتہ بیس پچیس سالوں میں سوشل میڈیا کی تیز ترین ترقی نے تاریخ کے وہ گوشے بھی آشکارا کر دیے جو ہمارے جیسے کمزور جمہوری ممالک کے حکمران طبقات ہر صورت چھپاتے ہیں مگر اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے حوالے سے وہ باتیں سامنے آئیں جو ہمیں پڑھائی گئی تاریخ کے بالکل الٹ تھیں۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بہانے افغانستان میں امریکی جارحیت کے بعد حامد کرزئی صدر کے طور پر سامنے آئے۔ پاکستان کے لیے حامد کرزئی کے تختِ کابل پر براجمان ہونا اطمینان کا باعث تھا اور تاثر دیا جاتا تھا کہ چونکہ حامد کرزئی پشتون ہے اور ہمارے پاس پشتونوں کی اکثریت ہے اور نان پشتونوں کا جھکاؤ ہمارے بجائے ایران کی طرف زیادہ ہے اور انڈیا کا بھی ان پر اثر رسوخ ہے۔ اس بات میں کافی حد تک حقیقت بھی تھی اور حامد کرزئی ابتدا میں کوشش کرتے رہے کہ پاکستان کے ساتھ بنا کر رکھے لیکن افغانستان میں تشدد کے واقعات بڑھتے رہے جس کا الزام حامد کرزئی ابتداء میں دھبے الفاظ میں سرحد پار کہہ کر لگاتے رہے لیکن وقت کے ساتھ ہمارے تعلقات افغانستان کے ساتھ تلخ ہوتے رہے اور یہاں تک پہنچے کہ عالمی فورم پر امریکی صدر کی موجودگی میں اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور افغان صدر حامد کرزئی نے ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے سے انکار کردیا۔
حامد کرزئی کے متبادل کے طور پر ڈاکٹر اشرف غنی کو سامنے لایا گیا جن کی وجہ شہرت بطورِ اقتصادی ماہر کے زیادہ تھی اور پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات بھی اچھے تھے۔ ڈاکٹر غنی کی ایک وجہ شہرت شرافت بھی تھی اور یہاں پاکستان میں رائے یہ تھی کہ وہ کسی ایسی نفرت انگیزی کا حصہ نہیں بنیں گے جو پاکستان کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہو۔ لیکن بدقسمتی سے تعلقات بہتری کے بجائے مزید خراب ہونے لگے۔ ڈاکٹر اشرف غنی کے دور میں پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے کافی نقصان پہنچا اور اربوں ڈالر کا کاروبار اشرف غنی کے رخصت ہونے والے دنوں تک ختم ہونے کے قریب ہوا۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے افغانستان تک سامان رسد پہنچانے کے لیے متبادل راستے تلاش کرنے پر لگایا جس کی وجہ سے موجودہ افغان عبوری حکومت کے لیے آسانی پیدا ہوئی۔
اگر ایمانداری سے دیکھیں تو ڈاکٹر غنی نے کو متبادل راستے تلاش کرنے میں ہم نے مدد دی کیونکہ ہم روزانہ گیٹ بند اور گیٹ کھلا کا کھیل کھیلتے رہے۔ بیشک دنیا میں ممالک ایسے ہی کمزوریوں کا استعمال کرکے دوسرے ممالک کو اپنی بات منوانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کسی کو اتنا مجبور نہیں کیا جاتا کہ وہ دوسرے ذرائع تلاش کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں۔ یہ سچ ہے کہ افغانستان تک رسد پہنچانے والے دیگر راستے مشکل اور پیچیدہ ہیں لیکن اب افغانستان کا اقتصادی پہیہ جام نہیں ہوتا جبکہ دوسری طرف ہم سراسر خسارے میں چلے گئے۔
موجودہ افغانستان اور افغان عوام کے حوالے سے بھی ہم غلط اندازے لگائے ہوئے ہیں جو ہماری افغان عوام سے دوری کا سبب بن رہےہیں۔ نائن الیون کے بعد افغان عوام میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی اور یقیناً سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اس تبدیلی کی بنیاد کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت کا عام افغان بھی جنگ و جدل اور جہادی کلچر کے بجائے ترقی پر مبنی معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے اور اس تاثر کو سچ مانتا ہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات کی وجہ پڑوس ہے۔ 2019 کے بعد پاک افغان تعلقات خرابی کے برعکس نفرت تک پہنچ گئے۔ یاد رہے کہ 2019 سے 2021 تک آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید رہے اور یہ وہی دور ہے جب افغانستان میں پاکستان کے لیے موجود ہمدردی کے جذبات بالکل معدوم ہوگئے اور افغان ذمہ داران ہر بات کی ذمہ داری آئی ایس آئی پر ڈالتے رہے اور طالبان کے تخت کابل تک پہنچنے کے بعد جنرل فیض حمید نے کابل میں سامنے آکر ان الزامات کو تقویت دی جو افغان ذمہ دار لگاتے آئے تھے۔
میرے خیال میں جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے اس دن پاکستان کی افغان پالیسی کو دفن کرکے رکھ دیا تھا لیکن افغانستان میں تبدیلی آنے کے بعد پھر بھی یہ کمی نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ ہم بہتر پوزیشن میں ہونے کے باوجود تعلقات کو نہیں سنبھال سکے۔
اس وقت کے افغانستان کے ساتھ بھی بظاہر ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہیں اور آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید ابتری کی طرف جا سکتے ہیں اور ہم ایک بار پھر اسی پوزیشن میں آکھڑے ہوں گے جہاں حامد کرزئی اور ڈاکٹر غنی کے دور میں کھڑے تھے۔ افغان عبوری حکومت کو بھی بعض معاملات پر اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرنی پڑے گی لیکن اس وقت اس کے باوجود کہ افغانستان میں امن قائم ہے اور اقتصادی پہیہ بھی محدود وسائل کے باوجود بہتر طریقے سے چل رہا ہے, افغان عوام موجودہ حکومت کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، لیکن طالبان حکومت کی سخت پابندیوں کی وجہ سے کھل کر اظہار نہیں کر سکتے۔ افغان حکومت کو موجودہ زمانے کے تقاضے جاننے ہوں گے ورنہ سابقہ افغان حکومتوں کی طرح یہ حکومت بھی تاریخ کا حصہ بن سکتی ہے۔ اس وقت وہاں کے ذمہ داروں کے درمیان خواتین کے معاملات بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم پر شدید اختلافات پائے جاتے ہیں اور دعا کرنی چاہیے کہ اختلافات مزید بڑھیں گے نہیں اور ذات تک نہیں پہنچیں گے نہیں تو افغانستان پھر سے اندھیروں میں گم ہو جائے گا اور خدانخواستہ ایک بار پھر دنیا کی سازشوں کا گڑھ بن جائے۔ ہمیں بھی سوچنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ خراب ہی کیوں رہتے ہیں؟ کہیں ہم خود احتسابی کے عمل سے بچنے کی کوشش تو نہیں کررہے؟ سوچیے گا ضرور کہ افغانستان ہماری خوشحالی کے بجائے بربادی کا ذریعہ کیوں بن رہا ہے؟