جو انقلاب حقیقی معنوں میں جمہوری نظام کے قیام کے مقصد کے تحت برپا نہیں ہوتا وہ دراصل آئندہ نسلوں پر مسلط کیا جانے والا جبر ہوتا ہے۔ اس کی زندہ مثالیں ان مختلف انقلابا ت کی صورت میں موجود ہیں کہ جن کے نتیجے میں حقیقی جمہوری نظام کے علاوہ کوئی اور نظام قائم کیا گیا۔ اب وہاں اگلی نسلیں اس جبر سے چھٹکارا چاہتی ہیں جو ان کے اجداد مسلط کر گئے۔ جبکہ وہ معاشرے جہاں بظاہر اُس طرح کسی بڑی یا خونی جدوجہد کے بعد انقلاب نہیں آیا، اور جنھوں نے رفتہ رفتہ جمہوری اور آئینی اقدار کو پروان چڑھایا، ان کے لیے کام کیا اور ایک تسلسل کے ساتھ کام کیا، ایک مثالی معاشرہ بنانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور وہاں ایسی بے چینی نہیں پائی جاتی۔ وہاں کے عوام کے لیے زندگی جینا بہت حد تک آسان ہو چکا ہے اور وہ معاشرے امن و امان اور فلاح و بہبود کے حوالے سے دنیا کے بہترین معاشرے سمجھے جاتے ہیں۔
جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ ہر چند برس بعد عوام کو اپنے لیے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ نظام میں تبدیلی کا اختیار دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے عوام اگر نظام سے یا نظام کے کسی خاص حصے سے مطمئن نہیں ہوں گے تو جو جماعت ان کی امنگوں کی ترجمان ہو گی اور ان سے نظام میں تبدیلی کے وعدے کرے گی، وہ اسے ووٹ کے ذریعے کامیاب کروا کر ایوانوں میں پہنچا دیں گے، اور زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد اگر وہ جماعت اپنے وعدوں پر پورا نہیں اتر ے گی تو اگلے انتخابات میں اس کی سزا بھگتے گی۔
ایک اوسط عمر جینے والا فرد اپنی زندگی میں دس پندرہ مرتبہ ووٹ کے ذریعے اپنی رائے دے سکتا ہے جبکہ کسی غیر جمہوری انقلاب کے نتیجے میں رائج ہونے والا نظام یا معذور جمہوری نظام کسی خاص طبقے یا کسی خاص ادارے کے زیر اثر کام کرتا ہے۔ وہاں اگر انتخابات کا کھیل جاری بھی رہے تو کچھ خاص فرق نہیں پڑتا۔ اس صورت میں اگلی نسلوں سے ان کی سوچ کے مطابق نظام تشکیل دینے کا اختیار چھین لیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس قبیل کے نظام ہمیشہ کے لیے قائم رہنے کے نعروں کے ساتھ مسلط ہوتے ہیں اور انھیں ایک طرح سے تقدس کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ ریاستیں بھی جذباتی انداز میں عوام کو اس کے ساتھ منسلک رکھتی ہیں۔ اور ایسا کم کم ہوتا ہےکہ اس سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری معاشروں نے جمہوریت کے اصول رفتہ رفتہ اور سوچ سمجھ کرطے کیے، ان پر پوری طرح عمل کیا اور یہ قانون سازی اب تک جاری ہے۔ یعنی جمہوری انقلاب ہی سب سے محفوظ راستہ ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے ایسے دعوے دار بھی ہیں جو یہ خواہش تو رکھتے ہیں کہ عوام انھیں اقتدار میں لائیں، لیکن اس کے لیے وہ مدد کہیں اور سے مانگتے ہیں، چاہے ملک کے اندر سے ہو یا باہر سے۔ یہ طرز جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ و منافقانہ ہے۔ ایسے رہنما جب اقتدار میں آتے ہیں تویہ چاہتے ہیں کہ ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہو کرمخالفین کا ناطقہ بند کریں اور اظہار رائے پرپابندیاں لگائیں۔ ایسے ایک رہنما آج کل زیر عتاب ہیں۔ وہ اقتدار میں تھے تو چین کی مثالیں دیا کرتے تھے اور مخالف آوازوں کو دباتے اور ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر سازشوں کے ذریعے دس دس سال تک اقتدار پر مسلط رہنے کے خواب دیکھتے تھے۔ کبھی کوئی ڈاکٹرائن متعارف کرائی جاتی تھی، کبھی کسی اور نظام کی ضرورت کی بحثیں چھیڑیں جاتی تھیں۔ نہ بھئی نہ، یہ جمہوریت نہیں ہے نہ آپ جمہوریت پسند ہیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے اپوزیشن سے ہاتھ ملانا دور کی بات، میں ان کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔
موصوف سمیت سب کو جلد یا بدیر ایک نقطے پر متفق ہونا پڑے گا کہ جمہوریت ایک تسلسل کا نام ہے، مخالف کی رائے کو برداشت کرنے کا نام ہے۔ ایک ایک شہری کو آزادی کے ساتھ انتخاب لڑنے اور ووٹ کا حق دلوانےکا نام ہے، چاہے آپ کو اس کی شکل بری بھی لگے۔ اور جب چند نسلیں آزادی کے ساتھ مسلسل اس عمل میں شریک رہیں گی تو کبھی نہ کبھی بات بن جائے گی۔ دیگر سب رستے کہیں اور تو جا سکتے ہیں، حقیقی جمہوریت اور فلاحی معاشرے کی منزل کی طرف نہیں جا سکتے۔