سابق امریکی صدر کے خلاف طویل تحقیقات کے بعد عائد کی جانے والی فرد جرم پڑھ کر سنا دی گئی۔ مگر اس سے قبل جو ماحول بنا تھا اس میں ٹرمپ کی ممکنہ گرفتاری اور ان کے حامیوں کی طرف سے کسی بھی ردعمل کا امکان شامل تھا، مگر نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی اور نہ ایسا کچھ دیکھنا کو ملا جس کا ناظرہ ٹرمپ پرستوں کی جانب سے ’کیپٹل ہل‘ پر حملے میں دیکھا تھا۔
کہنے کو تو نیویارک کے قانون کے مطابق مدعا علیہ جیسے ہی عدالت میں حاضر ہوتا ہے اسے گرفتار اور ڈسٹرکٹ اٹارنی کی تحویل میں تصور کیا جاتا ہے، اس موقع پر اس کو ہتھکڑی لگائی جاتی ہے اور ملزم کی حیثیت سے اس کی تصویر بھی جاری کی جاتی ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر ٹرمپ کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ٹرمپ پر فرد جرم عائد کرنے اور ٹرمپ کی تنقید کا نشانہ بننے والے نیو یارک کاؤنٹی کے اٹارنی جنرل ایلون بریگ نے انہیں ایسی کسی پابندی کا اہل نہیں سمجھا جس کا سامنا عام ملزمان کو کرنا پڑتا ہے۔ البتہ ٹرمپ کے فنگر پرنٹ لیے گئے کہ کارروائی کو آگے بڑھانے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔
اپنے قانونی ٹیم کے جلو میں کمرہ عدالت میں پہنچنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کو اٹارنی جنرل کی جانب سے چونتیس الزامات پر مشتمل فرد جرم پڑھ کرسنائی گئی، یہ عائد کیے جانے والے تمام الزامات ٹیکس معاملات میں کی جانے والی ہیری پھیری کے ایسے سلسلے سے جڑے تھے، جن کا آغاز 2016 میں ہوئے امریکی انتخابات کے موقع پر کی جانے والی غیر قانونی ادائیگی سے ہوا تھا۔
اس موقع پر اسسٹنٹ مین ہٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی کرس کونولی نے عدالت کو بتایا کہ ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے کاروباری ریکارڈ کو غلط بنایا، انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جھوٹی ادائیگیاں کیں اور نقصان دہ معلومات کو دبانے کے لیے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔
سابق امریکی صدر کی جانب سے تردید کے باوجود یہ بات اب کوئی راز نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے اس وقت کے وکیل مائیکل کوہن کے توسط سے ’سٹیفنی کلفورڈ ‘ نامی خاتون کو ایک لاکھ تیس لاکھ ڈالر کی خطیر رقم ادا کی گئی تھی۔ رقم وصول کرنے والی خاتون ’سٹیفنی کلفورڈ‘ دراصل فحش فلموں کی اسٹار ہیں اور اسٹورمی ڈینیئلز کے نام سے جانی جاتی ہیں۔
اس معاملے میں 2018 میں اس وقت اہم موڑ آیا جب ٹرمپ کی جانب سے پورن اسٹار کو رقم ادا کرنے والے وکیل مائیکل کوہن نے تسلیم کیا کہ وہ اسٹورمی ڈینیئلز کو رقم ادا کرنے کے معاملے میں ملوث تھے، ان کے اس قراری بیان کے بعد انہیں اس وقت سزا کا سامنا کرنا پڑا جب کہ ابھی ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر تھے، بعد میں معاملہ کھل جانے کے بعد خود اسٹورمی ڈینیئلز نے بھی رقم کی وصولی کا اقرار کیا تاہم ساتھ یہ وضاحت بھی کہ ان کے اور ٹرمپ کے مابین جنسی تعلقات کی کہانی ان کے صدر بننے سے برسوں پہلے 2006 کی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں اب مسئلہ صرف یہی نہیں کہ وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث رہے جس کی بحیثیت صدارتی امیدوار قانون انہیں اجازت نہیں دیتا بلکہ ادائیگی کا یہ معاملہ ٹیکس گوشوارے میں ظاہر نہ ہونے سے شروع ہوا جس نے پے در پے قانونی خلاف ورزیوں کے ایسے سلسلے کو جنم دیا جس نے جرائم کی تعداد کو 34 تک پہنچا دیا ہے۔
بہر حال اس وقت منظر نامہ یہ ہے کہ عدالتی پیشی اور اس دوران مکمل رعایت حاصل کرنے اور تمام الزامات کو یکسر تسلیم کرنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ واپس فلوریڈا روانہ ہوگئے ہیں۔ اب ان کے خلاف کیس جنوری میں دوبارہ شروع ہوگا، امریکی قانون کے تحت فرد جرم عائد ہونے کے باوجود وہ آزادنہ طور پر اپنی انتخابی مہم چلا سکیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت میں نروس نظر آنے والے ٹرمپ جب واپس فلوریڈا پہنچے تو ایک بار پھر عدالت پر گرجنے لگے۔ انہوں نے فلوریڈا میں اپنی حامیوں سے خطاب میں نہ صرف عدالتی کارروائی کو انتخابی عمل میں مداخلت سے تعبیر کیا بلکہ جج کو متعصب قرار دیتے ہوئے ساتھ ہی نیویارک کے ڈسٹرکٹ اٹارنی کو بھی مجرم قرار دیا۔
ٹرمپ نے کہا کہ امریکا بدنظمی کا شکار ہوچکا ہے، امریکا کی معیشت تباہ ہو رہی ہے، افراط زر قابو سے باہر ہو رہا ہے، روس نے چین سے اور سعودی عرب نے ایران سے شراکت کرلی ہے، اگر وہ امریکا کے صدر ہوتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی مرحلے پر یہ تمام الزامات درست ثابت ہوئے تو کیا ہوگا؟ اس حوالے سے برطانوی نشریات ادارے کی ایک رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد الزامات جس نوعیت کے ہیں ان میں انہیں ہر جرم میں زیادہ سے زیادہ چار سال کی سزا ہوسکتی ہے‘۔
عام طور پر مختلف الزامات کے تحت سنائی جانے والی سزائیں ایک ساتھ شروع ہوتی ہیں، اس حساب سے ٹرمپ کو زیادہ سے زیادہ چار سال قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تاہم یہ مرحلہ ابھی بہت دور ہے، پھر بھی اگر ایسا ہوجاتا ہے تب بھی امریکی قوانین کسی سزا یافتہ شخص کو انتخابی دوڑ میں شامل ہونے سے نہیں روکتے۔
اس سارے معاملات میں ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ ایک درجے میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان سے مختلف نہیں ہے کہ اس وقت عمران خان کو ان کی نجی زندگی سے لیکر سرکاری اہلکاروں کو دھمکانے تک جن مقدمات کا سامنا ہے ان میں انہیں مختلف سطحوں کی عدالتوں کی جانب سے غیر معمولی رعایت فراہم ہوتی نظر آرہی ہے۔
عمران خان جوش خطابات میں نہ صرف سیاسی مخالفین ہی کو نہیں لپیٹتے بلکہ ان کا نشانہ سابق اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ بھی ہوتی ہے۔
پھر یہ بھی سوئے اتفاق ہے کہ ٹرمپ کے حامیوں ہی کی طرح عمران خان کے حمایتی بھی اپنے سیاسی مخالفین سے کسی معاملے میں رو رعایت کے قائل نہیں اور اس کے لیے قومی وقار اور معاشرتی روایت دونوں کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔