خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں پولیس فورس کا اختیارات کے حصول اور بے جا مداخلت کے خلاف احتجاجی دھرنا تیسرے روز بھی جاری ہے، جہاں مظاہرین نے لکی مروت کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔
احتجاج پر موجود پولیس اہلکاروں کے ساتھ پولیس اور انتظامی افسران نے مذاکرات کے بعد بعض مطالبات پر عملدرآمد کی یقین دہانی بھی کرائی، تاہم ضلع کو مکمل طور پر پولیس کے حوالے نہ کرنے کے سبب دھرنا بدستور جاری ہے۔
احتجاجی دھرنے میں شدت، انڈس ہائی وے بند
لکی مروت پولیس کی جانب سے اس دھرنے کے رہنما انسپکٹر انیس خان نے فون پر وی نیوز کو بتایا کہ 3 روز سے جاری دھرنے میں وقت کے ساتھ شدت آرہی ہے، ٹانک، ڈی آئی خان اور بنوں سے بھی پولیس فورس کے جوان پولیس مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لکی مروت: پولیس فورس ہائی وے بلاک کرکے سراپا احتجاج کیوں؟
دوسری جانب مقامی شہری، تاجر، وکلا، طلبا اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی پولیس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دھرنے میں شریک ہوتے ہیں۔ ’اس وقت دھرنا 3 مختلف مقامات پر جاری ہے اور انڈس ہائی وے بند ہونے سے کراچی، کوئٹہ اور میانوالی سے رابطہ منطقع ہے۔‘
اختیارات چاہتے ہیں، فورسز کی مداخلت بند ہونی چاہیے
انیس خان کے مطابق پولیس کا احتجاجی دھرنا اپنی مراعات یا تنخواہوں کے لیے نہیں بلکہ قانون کی بالادستی اور پولیس کے اختیارات کے حوالے سے فورسز اور دیگر اداروں کی مداخلت کے خلاف ہے۔ ’ہمارا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ پولیس کو مکمل اختیارات ملنے چاہییں اور فورسز کی مداخلت بند ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ 3 سالوں سے کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ جب پولیس اہلکاروں پرحملے نہ ہوئے ہوں، آئے روز پولیس جوان شہید ہو رہے ہیں جبکہ پولیس کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لیے سہولیات اور جدید اسلحہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
مزید پڑھیں: لکی مروت: پولیس فورس ہائی وے بلاک کرکے سراپا احتجاج کیوں؟
’لکی مروت میں 15 تھانوں کے لیے صرف 3 اے پی سی گاڑیاں ہیں، مجموعی طور پر ایک ہزار اہلکار ہیں جن میں نصف سے زائد وی آئی پی شخصیات کی ڈیوٹی پر تعنیات ہیں۔‘
انسپکٹر انیس خان کے مطابق مظاہرین کے ایک مطالبے کو چھوڑ کر پولیس انتظامیہ باقی تمام مطالبات ماننے کو تیار ہیں لیکن اس ایک مطالبے سے پولیس مظاہرین پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ’ہمارا دھرنا بھی اسی لیے ہے، ہم ڈیوٹی اور تھانے چھوڑ کر صرف مداخلت کے خلاف نکلے ہیں تاکہ اختیارات ملیں۔‘
مذاکراتی کمیٹی تشکیل، دھرنا جاری رکھنے کا اعلان
انیس خان نے بتایا کہ لکی مروت میں تمام تھانوں کے جوان اور افسران ڈیوٹی چھوڑ کر دھرنا دیے بیٹھے ہیں، آر پی او، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کے ساتھ مذاکرات کے متعدد ناکام دور ہوچکے ہیں، انھوں نے بتایا کہ حکام ان کا دیرینہ مطالبہ پورا کر نے کے لیے تیار نہیں اور احتجاجی پولیس پر دھرنا ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ‘ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے، دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے، بس ہم صرف یہ چاہتے ہیں۔‘
دھرنے میں شریک ’پولیس رہنماؤں‘ کو شوکاز نوٹس
خیبر پختونخوا پولیس حکام نے ڈیوٹی چھوڑ کر احتجاجی دھرنے میں شرکت اور مظاہرین کی رہنمائی پر پولیس افسران کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیے ہیں، جس میں انہیں احتجاج ختم کرکے فوراً ڈیوٹی شروع کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔
انیس خان کے مطابق احتجاجی پولیس اہلکار اب ان شوکاز نوٹس سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ’ہم مجبور ہو کر سر پہ کفن باندھ کر نکلے ہیں، مطالبات منوا کر ہی دھرنا ختم کریں گے ورنہ احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔‘
لکی مروت میں حالات کشیدہ ہیں مقامی افراد بھی پولیس دھرنے میں شریک ہیں لیکن جہاں صوبائی پولیس مکمل طور پر خاموش ہے وہیں صوبائی حکومت بھی اس ضمن میں کسی موقف کو اپنانے سے گریز کررہی ہے، ضلعی پولیس کے اس دھرنے کے حوالے سے پولیس حکام سے رابطہ کرنے کی کوششوں کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔