خیبر پختوںخوا کے ضلع باجوڑ میں پولیو ٹیم پر آتشیں حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار اور ایک پولیو ورکر جاں بحق ہوگئے۔
مقامی پولیس کے مطابق مذکورہ واقعہ بدھ کی صبح پیش آیا جس کی اطلاع ملتے ہی پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور تحقیقات کا آغاز کردیا جبکہ میتوں کو ہیڈکوارٹر اسپتال خار پہنچا دیا۔
پولیس نے بتایا کہ علاقے میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں پولیو قطرے پلائے بغیر بچوں کی انگلیوں پر نشان لگائے جانے کا انکشاف
پاکستان دنیا کے ان 2 ممالک میں سے ہے جہاں مسلسل جدوجہد کے باوجود پولیو کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا ہے اور اب ملک میں پولیو کے کیسز میں ایک بار پھر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس میں اب تک ملک کے 13 اضلاع میں پولیو کے 17 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور حیرت انگیز طور پر اسلام آباد میں بھی 16 سال کے بعد پولیو کا کیس رپورٹ ہوا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کسی بھی خطے کو اس وقت پولیو سے پاک قرار دیا جاتا ہے جب اس خطے میں 3 برس تک کوئی کیس رپورٹ نہ ہو لیکن پاکستان بہت بار اس بیماری کے خاتمے کے قریب تو آیا ہے لیکن اس کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔
مزید پڑھیے: پولیو مہم کے پہلے دن ہی 27 فیصد والدین نے بچوں کی ویکسینیشن سے انکار کیوں کیا؟
یاد رہے کہ پولیو ایک ایسی خطرناک بیماری ہے جس کا کوئی علاج تو نہیں ہے لیکن اس بیماری سے ویکسین کے ذریعے بچوں کو محفوظ ضرور رکھا جا سکتا ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک پولیو کا خاتمہ کر چکے ہیں لیکن افغانستان اور پاکستان وہ ممالک ہیں جو سنہ 2024 میں بھی اس بیماری کا خاتمہ کرنے سے ناکام ہو چکے ہیں۔ جب باقی تمام ممالک نے ویکسینیشن کے ذریعے اس کا خاتمہ کر دیا ہے تو پھر پاکستان اس میں کیوں ناکام ہو رہا ہے؟
پاکستان پولیو پروگرام کے سابق سینیئر منیجر میڈیا افئیرز ذوالفقار کاکاخیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیو پروگرام پاکستان کا سب سے پرانا پروگرام ہے جسے ہر حکومت، فوج، پولیس، ڈپٹی کمشنرز، کمشنرز اور انٹرنیشنل ڈونرز کی پوری سپورٹ رہی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان میں پولیو کو ختم نہیں کیا جا سکا جس کی مختلف وجوہات ہیں۔
ناکامی کی ایک بڑی وجہ ’تبدیلی‘ بھی ہے
ذوالفقار کاکاخیل نے کہا کہ پولیو کے خاتمے کی ناکامی میں ایک بہت بڑی وجہ حکومتوں کا بدلنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ نیشنل کوآرڈینیٹر پولیو پروگرام کو لیڈ کرتا ہے اس لیے ہر کچھ عرصے کے بعد جب لیڈر شپ میں تبدیلی ہوگی تو اگلا جو آئے کا وہ کام پھر زیرو سے شروع کرے گا اور اپنی حکمت عملی بنائے گا اور پھر جلد ہی اگلا آنے والا اپنی پالیسیاں بناتا ہے جسکے باعث کام وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب سے رواں سال کے دوران پولیو کا پہلا کیس رپورٹ
انہوں نے کہا کہ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان کی وجہ سے پاکستان سے پولیو کا خاتمہ کرنا مشکل ہو رہا ہے تو اس صورت میں ترجیح پاکستان کو دینی چاہیے اور اس طرح کے تمام اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے ملک کو پولیو سے پاک کیا جائے لیکن یہاں بھی اقدامات میں کمی دیکھی جاتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان میں پولیو، ذمے دار کون؟
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایمرجنسی کمیٹی برائے پولیو کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین آمدورفت بھی پولیو کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ رہی ہے۔ کمیٹی کے مطابق افغانستان میں پولیو کے پھیلاؤ میں اضافے کی ایک وجہ پاکستان سے لاکھوں افغان مہاجرین کی افغانستان واپسی بھی ہو سکتی ہے جبکہ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پولیو کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیچھے افغانستان سے آنے والے متاثرہ لوگ ہیں۔
ڈیڈ لائن سے عاری کاوشیں
تیسری وجہ ان کے مطابق پاکستان میں کسی ڈیڈ لائن کا مقرر نہ کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے بارے میں ہر جگہ بات ہوتی ہے۔ ٹی وی، ریڈیو، سوشل میڈیا پر باقائدہ کیمپینز چلائی جاتی ہیں مگر اس کے خاتمے کے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے حوالے سے کوئی وقت مقرر نہیں کرتا جبکہ اگر ایسا کرکے اسٹریٹجیز بنائی جائیں تو پولیو کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ذوالفقار کاکاخیل نے بتایا کہ پاکستان میں اب بھی مذہبی اعتبار سے پولیو کے قطروں کو بہت سے گاؤں، دیہاتوں میں حرام قرار دیا جاتا ہے لیکن اب یہ چیز اس طرح نہیں رہی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی تاہم جن علاقوں میں اب بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے وہاں مؤثر مواصلات کی ضرورت ہے۔
والدین کی جانب سے انوکھی بارگیننگ
ذوالفقار کاکاخیل نے کہا کہ پولیو کے خاتمے میں ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ بعض اوقات والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطروں پلوانے سے انکار کردیتے ہیں کیونکہ وہ اس عمل کو اپنے مسائل سے منسلک کر لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: چمن: پولیو ٹیم پر حملہ، خواتین اور لیویز اہلکار زخمی ہوگئے
انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ حکومت ہر سطح پر کوشش کرتی ہے کہ تمام بچے پولیو کے قطرے پی لیں تو پھر لوگ لوکل لیول پر یہ ڈیمانڈز رکھتے ہیں کہ ہماری نالیاں بنوائیں، راستے پکے کروائیں یا دیگر مسائل حل کریں تو ہم قطرے پلانے دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس بارگیننگ سے نئے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں اور پولیو کی راہ میں یہ انوکھی رکاوٹ بھی آجاتی ہے۔
پولیو کے قطرے پلوانے پر جرمانہ
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر میں تقریباً 40 دنوں سے جاری وادی تیرہ کے متاثرین کی جانب سے مسائل کے حل تک بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی سرکاری مہم کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ملک سے پولیو کے خاتمے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائیں گے، وزیراعظم شہباز شریف
وادی تیرہ کے کوکی خیل قبیلے کے ایک جرگے کی طرف سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا جس میں اس قبیلے کی تمام شاخوں کو بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلوانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق کوکی قبیلے کی جانب سے پولیو کے قطرے پلوانے پر والدین پر 10 ہزار روپے جرمانہ بھی رکھا گیا ہے۔