سیمی کنڈکٹر مارکیٹ پر امریکی اتحادی چھائے ہوئے ہیں ۔ تائیوان اکیلا گلوبل مارکیٹ سے سیمی کنڈکٹر کا 60 فیصد ریونیو اکٹھا کرتا ہے۔ چین کا مارکیٹ شیئر 8 فیصد ہے۔ کوریا کا شیئر 18 فیصد ہے، جو سارا ایک ہی کورین کمپنی سام سنگ کا مرہون منت ہے۔ تائیوان اور کوریا امریکی اتحادی ہیں۔ چین اس دوڑ میں 8 فیصد شیئر کے ساتھ کہیں پیچھے ہے۔
امریکا کو خدشہ ہے کہ تائیوان اک دن چین کا ہو جانا ہے۔ یہ دن اب زیادہ دور ہے بھی نہیں۔ یوکرین جنگ کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی روس کا کچھ خاص کر نہیں سکے ہیں ۔ تائیوان یوکرین کے مقابلے میں بہت ننھا منا ہے۔ چِپ اور سیمی کنڈکٹر گاڑیوں، سیل فون، کمپیوٹر، سیٹلائٹ، ملٹری اکویپمنٹ، آئل انڈسٹری، ہیلتھ، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، روبوٹ بس نام لیتے جائیں ہر جگہ استعمال ہونے والی لازمی آئٹم ہے۔
جس کا کنٹرول چِپ اور سیمی کنڈکٹر انڈسٹری پر ہوگا وہی انڈسٹری کا بھگوان سا بن جائے گا۔ چین تیزی سے ترقی بھی کر رہا ہے۔ اس کی ترقی کی رفتار کو کم کرنے کے لیے امریکا یورپ اس پر ٹیرف لگا رہے ہیں۔ چین کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ہوواوے ان پابندیوں سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ یہ ساری پابندیاں اور اسکیمیں بے معنی ہو جائیں گی، اگر تائیوان ہی چین ہو جاتا ہے۔
CHIPS Act 2022 ITSI Fund
چِپس ایکٹ 2022 بائیڈن انتظامیہ نے منظور کیا تھا۔ 1990 میں سیمی کنڈکٹر بنانے میں امریکی شیئر 36 فیصد تھا۔ یہ گر کر 2020 میں 10 فیصد رہ گیا ہے۔ اس کمی کی وجہ سے نیشنل سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔امریکا اپنی سپلائی چین محفوظ بنانا چاہتا ہے۔ چین کے ساتھ جاری ٹریڈ وار کے بعد سپلائی چین کا محفوظ رہنا اور بھی لازمی ہو گیا ہے۔
چِپس ایکٹ کے تحت امریکا کے اندر سیمی کنڈکٹر اور چپس کی پیداوار بڑھانے کے لیے 39 ارب ڈالر رکھے گئے۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے لیے الگ سے 11 ارب ڈالر کا فنڈ مختص کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل ٹیکنالوجی سیکیورٹی اینڈ انوویشن بھی اسی چِپس ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ کوسٹاریکا، انڈونیشیا، کینیا، میکسیکو، پاناما، فلپائن اور ویتنام پہلے ہی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔ اس ٹیکنالوجی اتحاد میں شامل ہونے والا انڈیا آٹھواں ملک ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ڈالر گرنے اور دنیا کی کرنسی مارکیٹ اوپر نیچے ہونے کو ہے ؟
یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، انڈیا سیمی کنڈکٹر مشن اور وزارت الیکٹرانکس اور آئی ٹی نے شراکت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس شراکت داری کا مقصد گلوبل سیمی کنڈکٹر ایکو سسٹم کا تنوع، فروغ اور ترقی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں انڈیا کی موجودہ سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کا جائزہ لیا جائے گا۔ ریگولیٹری فریم ورک، افرادی قوت، بنیادی ڈھانچے کی ضروریات دیکھی جائیں گی۔
انڈین اسٹیک ہولڈر، ریاستی حکومتیں، تعلیمی ادارے، تحقیقی مراکز، اور نجی کمپنیاں، انڈیا سیمی کنڈکٹر مشن کی رہنمائی میں اس ایکسرسائز کا حصہ بنیں گی۔ انڈیا اور امریکا کی شراکت داری کا مقصد سیمی کنڈکٹر سپلائی چین کو اس قابل بنانا ہے کہ ڈیمانڈ کے مطابق پیداوار کر سکے۔
انڈیا پہلے سے ہی سیمی کنڈکٹر اور چِپس کی سپلائی کو لیکر فکرمند ہے۔ انڈیا کے اڈانی گروپ نے اسرائیل کے ٹاور سیمی کنڈکٹر کے ساتھ پارٹنر شپ کر لی ہے۔ دونوں ملک مل کر انڈیا میں 10 ارب ڈالر مالیت کا پروڈکشن پلانٹ لگائیں گے۔ تائیوان پر جو خدشہ امریکا کو ہے وہی انڈیا کو بھی لاحق ہے۔ اس لیے انڈیا بھی اپنی سپلائی چین محفوظ رکھنے اور ترقی کی رفتار برقرار رکھنے کو ابھی سے انتظام کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی انخلا کے 3 سال بعد، افغانستان پر دنیا کو اعتبار نہیں آیا
چین پاکستان کا آئرن برادر ہے، وہ بھی شہد سے میٹھا۔ اس لیے ہم اگر افیمیوں والی نیند بھی لیتے رہیں تو ہمارا بنتا ہے۔ ورنہ یہ ایک ایسی فیلڈ تھی جہاں سرمایہ کاری کے لیے پیسہ دستیاب ہے۔ اگر ہنر دستیاب ہو، پالیسی سرمایہ اور ٹیکنالوجی دوست ہو۔ ہم کو پیسے مل سکتے تھے۔ ایس آئی ایف سی نے جو گرین پراجیکٹ شناخت کر رکھے ہیں۔ ان میں چِپس اور سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کے پراجیکٹ بھی شامل ہیں۔
انڈیا کرکٹ میں ہمیں سینکڑوں کلومیٹر پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ ہاکی ہم نے اپنے سر میں مار لی ہے۔ جیولین تھرو میں پاکستان کے ارشد ندیم نے انڈیا کے نیرج چوپڑا کو ہرا کر اولمپک گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ یہ اک نئی فیلڈ تھی جس میں پاکستان انڈیا سے آگے نکلا ہے۔ پاکستان میں آئی ٹی کی ایکسپورٹ بڑھ رہی ہیں۔ گو کہ ہم اپنی طبیعت کے مطابق نیٹ کی اسپیڈ میں ڈانگ پھنسا کر اور مختلف ایپ کو روک کر اپنا کام مشکل کرتے جا رہے ہیں۔ پھر بھی بچہ لوگ محنت کر رہے ہیں۔ پاکستان کو سیمی کنڈکٹر اور چِپس انڈسٹری میں بھی پکے پیر جمانے چاہییں۔ اس آئٹم کی ڈیمانڈ اتنی ہے کہ صرف ایک خدشے کو لے کر اس کی مارکیٹ اوپر نیچے ہوئی پڑی ہے۔ اس فیلڈ میں ہم کچھ کر سکیں تو معیشت کی روٹھی محبوبہ مان سکتی ہے۔