وزیر اعظم شہباز شریف نے آج اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ کو آج عشائیہ پر مدعو کیا ہے، جو آج رات 7بجے وزیراعظم ہاؤس میں دیا جائے گا۔ عشائیہ میں مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ اور سینیٹرز شریک ہوں گے۔
قومی اسمبلی و سینیٹ میں مخصوص آئینی ترامیم کے حوالے سے بل پیش کیے جانے سے متعلق مختلف قیاس آرائیاں ہورہی ہیں، اسی سلسلے میں حکومت نے پارلیمان میں آئینی ترمیم کے حوالے سے اراکین کی مکمل حاضری کو یقینی بنانے کی بھی ہدایت کردی ہے۔
وزیر اعظم نے حکومتی اتحاد کے تمام اراکین پارلیمنٹ کو پیر تک اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کی ہے جبکہ حکومت جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مکمل حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی متحرک ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت آئینی ترمیم کے لیے دھونس اور جبر سے نمبر پورے کرے گی، سلمان اکرم راجا
خیال رہے قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں آئینی پیکج سمیت چیف جسٹس کو توسیع دینے کے لیے حوالے سے آئینی ترامیم پیش کیے جانے کی اطلاعات ہیں جہاں حکومت نے ترامیم کی منظوری کے لیے درکار اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس آج دوپہر 3بجے ہوگا جس میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کے حوالے سے آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال اور ہائیکورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ججز تقرری کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کا امکان ہے، نظام انصاف اور عدالتی اصلاحات سے متعلق 22 ترامیم کے پیکج کو منظور کروایا جائے گا۔ ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے اتفاق نہیں ہوسکا، اس لیے طے پایا ہے کہ چیف جسٹس کی تقرری اُسی طریقے سے کی جائے جیسے آرمی چیف کی تقرری کی جاتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون کے بعد 5 سینئر ترین ججز کی سمری وزیراعظم کو ارسال کی جائے گی جس میں سے وہ ایک کو چیف جسٹس بنانے کی منظوری دیں گے۔ اس کے علاوہ ججز کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کا انضمام کردیا جائے گا جہاں حتمی طور پر ججز کی تقرری کو فائنل کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: نمبر پورے ہوچکے، کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئینی ترمیم پیش کریں گے، خواجہ آصف
واضح رہے کہ آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے الگ الگ دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ جس کے لیے قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 63 ارکان کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں حکومتی نشستوں پر 211 ارکان جبکہ اپوزیشن بینچز پر 101 ارکان موجود ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت آئینی ترمیم لانا چاہے تو اسے مزید 13 ووٹ درکار ہوں گے۔
سینیٹ میں حکومتی بینچز پر پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان ہیں۔ حکومتی بینچز پر 4 آزاد سینیٹرز بھی ہیں۔ ایوان بالا میں ان کی مجموعی تعداد 54 بنتی ہے، آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو مزید 9 ووٹ درکار ہیں۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انہیں سینیٹ میں صرف 3 ووٹ درکار ہیں۔