بھارتی شہر آگرہ میں مسلسل 3 دن سے ہونے والی بارش کے باعث مشہور تاریخی مقام تاج محل کی چھت سے پانی رسنے لگا ہے جبکہ تاج محل سے ملحقہ باغ میں بھی بارش کا پانی جمع ہوگیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا آگرا سرکل نے تصدیق کی کہ مسلسل 3 روز سے جاری بارشوں سے تاج محل کے مرکزی گنبد سے پانی ٹپکنے لگا ہے تاہم گنبد کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ تاج محل کے متاثرہ گنبد کا ڈرون کیمروں کے ذریعے جائزہ لیا گیا ہے۔ پانی ٹپکنے کا واقعہ سیپج کی وجہ سے ہوا ہے لیکن گنبد کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور تاج محل مینیجمنٹ کمیٹی کے مطابق مقبرے کی فوری مرمت اور باغ سے پانی نکالنے کا کام بارش رکتے ہی شروع کر دیا جائے گا۔
مزید پڑھیں:محبت کا آخری عجوبہ
شدید بارشوں کی وجہ سے آگرہ کی سڑکیں سیلابی صورتحال کا شکار ہیں، جس کی وجہ نکاسی آب کا ناقص نظام اور ناکافی شہری منصوبہ بندی ہے۔ آگرہ میں ایک ہی دن میں 151 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ 80 برس میں سب سے زیادہ بارشوں کا ایک ریکارڈ ہے۔ بارشوں کے نتیجے میں آگرا فورٹ اور فتح پور سیکری فورٹ جیسے دیگر تاریخی مقامات میں بھی سیلاب آیا اور انہیں نقصان پہنچا۔
واضح رہے کہ تاج محل مقبرہ ملکہ ممتاز محل زوجہ شاہ جہاں (1627 – 1659) بھارت کے شہر آگرہ میں واقع سنگ مرمر سے بنی ایک عظیم الشان عمارت ہے جسے مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی زوجہ کی محبت کی لافانی یادگار کے طور پر دریائے جمنا کے ساحل پر بنایا تھا۔
تاج محل اپنے فنِ تعمیر کی خوبیوں اور خصوصیتوں کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہے اور عجائبات عالم میں شمار ہوتا ہے۔ ہر سال لاکھوں سیاح اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں کے نظم و نثر میں تاج محل اور اس کے عجائب پر اس قدر لکھا جا چکا ہے کہ ان سب کا احاطہ بے حد مشکل ہے۔
تاج محل مغل طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس کی تعمیراتی طرز فارسی، ترک، بھارتی اور اسلامی طرز تعمیر کے اجزا کا انوکھا ملاپ ہے۔ 1983 میں تاج محل کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور کلچر نے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا تھا۔
مزید پڑھیں:7 عجائبات عالم کو کم وقت میں دیکھنے کا عالمی ریکارڈ قائم
تاج محل کو عالمی ثقافتی ورثہ کی جامع تعریف حاصل کرنے والی، بہترین تعمیرات میں سے ایک بتایا گیا ہے۔ تاج محل کو بھارت کے اسلامی فن کا عملی اور نایاب نمونہ بھی کہا گیا ہے۔ قریباً 1648 میں مکمل تعمیر کیا گیا تھا۔ استاد احمد لاهوری اس کے معمار تھے۔