وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے، ملک کی ڈائریکشن پارلیمنٹ نے طے کرنی ہیں۔ حکومت کا کام بل لانا اور اپوزیشن کا کام اس میں خامیوں کی نشاندہی کرنا ہے۔ وکلا آئینی پیکج مسترد کرتے ہیں تو اس کا ذمہ دار میں ہوں گا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ملکی انتظامی معاملات عدالتوں نے نہیں ہم نے دیکھنے ہیں۔ آئینی ترامیم کوئی نئی بات نہیں یہ چارٹر آف ڈیموکریسی کا حصہ ہیں۔ حکومتی حلقوں میں مشاورت کے بعد ڈرافٹ کو کابینہ میں لایا جاتا ہے۔ کچھ حقائق سامنے رکھوں گا، اراکین کی سب باتوں کا جواب دوں گا۔ یہ ترامیم اتفاق رائے سے ہوں گی۔
وزیر قانون نے کہا کہ بل یا ترامیم کا مسودہ اس وقت سامنے آتا ہے جب بل پیش ہوجائے۔ مسودہ سب سے پہلے کابینہ میں پیش کیا جاتا ہے اور پھر اسمبلی میں۔ بل ابھی مسودہ بن کر کابینہ میں نہیں گیا۔ ناراضی سیاست کا حسن ہے۔
مزید پڑھیں:نگراں دور حکومت میں آئے آرڈیننسز کو منظور یا مسترد کرنا ایوان کا استحقاق ہے، اعظم نذیر تارڑ
اعظم نذیر تارڑنے کہا کہ ملکی انتظامی معاملات عدالتوں نے نہیں ہم نے دیکھنے ہیں۔ چیف جسٹس نے چینی کے ریٹ مقرر نہیں کرنے، چیف جسٹس نے بجلی کے بل اور کھمبے نہیں لگانے۔ ہم سب نے مل کر ہی عوام کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے ہیں۔ پارلیمنٹ نے دیکھنا ہے کہ ملک نے کیسے چلنا ہے، پارلیمنٹ کو مضبوط ہو کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کوئی شک نہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کون سی طاقت تھی جس نے کہا تھا کہ آئینی عدالت نہیں بنے گی؟حکومتی بل ہے تو سب سے پہلے حکومتی اتحادیوں سے مشاورت ہوتی ہے۔ طے ہوا تھا کہ میثاق جمہوریت کے نامکمل حصوں پر کام کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی والے تعصب کی عینک اتار کر آگے چلیں۔ کوئی شک نہیں پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے اور قانون سازی اس کا حق ہے۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم بہت بڑی کنٹریبیوشن تھی۔ قانون ساز پارلیمان کا اختیار ہے کہ وہ مناسب قانون سازی کرے۔ ہم اپنی ساری طاقت جا کے جھولی میں ڈال آتے ہیں۔ چیف جسٹس نے بجلی کے کھمبے لگانے کا حکم نہیں دینا۔ منشور ہم نے دینا ہے،آپ کے تو پہلے ہی کیس چل رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:عمران خان کو خواب آتے ہیں، من مرضی کی کوئی آئینی ترامیم زیر غور نہیں، اعظم نذیر تارڑ
انہوں نے کہا کہ تعصب کی عینک ایک طرف رکھ کے تھوڑا آگے چلیں۔ ہمارا کام پورا ہو تو آپ تک پہنچیں گے، کمیٹی بنی ہوئی تھی، کمیٹی میں اس پر بات شروع ہوئی، فیچرز سامنے رکھے، فوری طور پر اس کو چیف جسٹس کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ میرے دور میں تو کوئی ریفرنسں فائل نہیں ہوا۔ یہ کوئی ڈاکا، چوری، رات کا اندھیرا نہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کانسپٹ ہے کہ 7 یا 8 ججز ہوں۔ 61 ہزار سے زائد مقدمات سپریم کورٹ میں پینڈنگ ہیں۔ ہم نے نادانیاں اتنی کی ہیں کہ آپ نے اپنا سارا اختیار دیوار کے اس پار دے دیا۔ انصاف دیں اور وقت پر دیں، ایک کیس میں 2016 سے اپیل پینڈنگ ہے اس کا فیصلہ نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کو 18ویں ترمیم کے مطابق بنایا جائے۔ ہم نے کہا ہے کہ 8 کے 8 بندے مرج کرتے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن جس کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے وہ ہائیکورٹس سے سالانہ رپورٹ لیں گے۔ جو کام نہیں کرے وہ گھر جائے، کیا اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے؟
مزید پڑھیں:آئین کے مطابق ایڈہاک ججز کی تعیناتی ہونی چاہیے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ
وزیر قانون نے بتایا کہ بلوچستان والوں نے کہا کہ ہمارے حلقے بہت بڑے ہیں، سیٹوں کو بڑھائیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جن سے گھبرانا نہیں، بالکل دلیری کے ساتھ لے آئیں گے۔ بلاول بھٹو نے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے ان کی اچھی تجاویز ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ پارلیمان کو مضبوط رکھو۔ قاضی فائز عیسیٰ کا نام آپ اس لیے لے رہے ہیں کہ وہ آپ کو کچھ زیادہ خواب میں آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہہ مولانا فضل الرحمان کی تجویز ہم نے مانی، تمام پارلیمانی جماعتوں سے بات کا آغاز ہوچکا ہے۔ آپ مثبت تجاویز کمیٹی میں لے کے آئیں۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ جو پس رہے ہیں ان کے لیے کچھ کریں۔