کراچی کی ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے الحاق شدہ لیاری جنرل اسپتال میں قائم کالج آف نرسنگ برائے مرد میں خاتون پرنسپل شبانہ بلوچ کے تبادلے کے باوجود ان کی آفس میں موجودگی کا تنازعہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے، جہاں آج نرسنگ طلبا کی جانب سے احتجاج کے موقع پر ہنگامہ آرائی کے باعث سابق ایم پی اے سمیت بعض افراد زخمی ہوگئے۔
احتحاجی طلبا پر کالج اسٹاف کی جانب سے مبینہ حملے کی اطلاع پر رہنما جماعت اسلامی اور سابق رکن سندھ اسمبلی عبدالرشید لیاری جنرل اسپتال پہنچے لیکن وہاں مبینہ طور پر بیرونی عناصر کی جانب سے کیے جانیوالے پتھراؤ سے زخمی ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی پولیس کی بڑی کارروائی، لیاری گینگ وار جوجی گروپ کا کمانڈر گرفتار
کالج میں موقع پر موجود طلبا کے مطابق اسپتال کے اندر سے غیر طلبہ عناصر نے پتھراؤ کیا ہے جس سے سابق ایم پی اے عبد الرشید بھی زخمی ہوئے، واقعے کے بعد طلبا شکایت درج کرانے چاکیواڑہ تھانے پہنچ گئے، طلبا کا دعویٰ تھا کہ ان کا ایک ساتھی طالب علم خنجر کے وار سے زخمی ہوگیا تھا۔
لیاری جنرل اسپتال کے نرسنگ کالج کے طلبا کئی ماہ سے غیر تدریسی عناصر کی جانب سے مداخلت اور سابقہ پرنسپل شبانہ بلوچ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، جماعت اسلامی کے ایم پی اے محمد فاروق نے وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار کو صورتحال سے آگاہ کیا، جنہوں نے لیاری جنرل اسپتال میں ہونے والے واقعہ کی رپورٹ متعلقہ پولیس افسران سے طلب کرلی ہے۔
یہ معاملہ ہے کیا؟
اس سے قبل بھی کئی بار نرسنگ کالج سے وابستہ طلبا کی جانب سے کالج کی پالیسی کیخلاف احتجاج ریکارڈ کرایا جاچکا ہے، طلبا کا موقف رہا ہے کہ پرنسپل شبانہ بلوچ کے تبادلے کے باوجود عہدے پر براجمان رہنے سے حالات کشیدہ ہیں، انہوں نے انکوائری رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے مرد پرنسپل کو کالج میں تعینات کرنے کا مطالبہ دہرایا ۔
مزید پڑھیں:لیاری کا گینگسٹر رحمان ڈکیت جس نے اپنی ماں کو بھی نہیں بخشا
پرنسپل شبانہ بلوچ نے بھی کراچی پریس کلب کے باہر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ لیاری جنرل اسپتال کے ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی جانب سے بھی احتجاج کیا گیا تھا، انہوں نے ہراسانی کے مرتکب طلبا کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
پرنسپل اور طلبا کے درمیان جاری مخاصمت سے کئی بار اسپتال میں کام متاثر ہوا اور مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم طلبا بضد ہیں کہ سابقہ پرنسپل کا اثرو رسوخ ختم کیا جائے تا کہ علاج معالجے کے ساتھ تعلیمی سرگرمیاں بھی جاری رکھی جاسکیں۔