پاکستانی عدالتوں میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوئی، قتل کے جس مقدمے میں انہیں پھانسی کی سزا دی گئی اسے عدالتی قتل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی 44 سال بعد یہ تسلیم کیاکہ اس مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے۔ نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کا سہارا لے کر ضیاالحق کے مارشل لا کو جائز ٹھہرایا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ضیا دور میں پیپلز پارٹی کو عدل کے ایوانوں سے انصاف نہیں ملا۔
ضیا کے طویل دور آمریت میں آئین و قانون کو جس طرح بے وقعت کیا گیا، اس میں کوئی کلام نہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ خود بھٹو صاحب کا جمہوری عہد عدلیہ کی آزادی کے اعتبار سے اچھا نہیں تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بنائے ہوئے آئین میں ایسی ترامیم کیں جن کا مقصد عدلیہ کی آزادی محدود کرنا تھا۔ ان ترامیم کے ذریعے انہوں نے اپنے ناپسندیدہ ججز سے نجات حاصل کرنے اور من پسند منصفوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع دینے کا راستہ نکالا، دلچسپ بات ہے کہ یہ ترامیم جس ماحول اور جن مقاصد کے لیے ہوئیں وہ عشروں بعد بھی حسبِ حال ہیں اور حالیہ نام نہاد مجوزہ آئینی پیکیج بھی اسی نوع کی سرگرمی معلوم ہوتی ہے۔
نامور لکھاری فقیر سید اعجاز الدین نے اپنے ایک کالم میں انگریزی محاورے کی مدد سے ملکی صورتِ حال پر تبصرہ کیا تھا:
IN every way,we are back to square one.
اس سے مجھے ایڈورڈ سعید کی کتاب The question of palestine کے اردو ترجمے کا خیال آیا جس میں مترجم شاہد حمید نے back to square one کا پنجابی میں یہ ترجمہ کیا ہے:
مُڑ گِھر کے کھوتی بوہڑ تھلے
فٹ نوٹ میں وہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
’یہ پنجابی محاورہ انگریزی محاورے back to square one کا ترجمہ ہے۔ دونوں کا مطلب ایک ایسی صورت حال ہے جہاں معاملات وہیں آن پہنچتے ہیں جہاں سے ان کا آغاز ہوا تھا‘۔
معروف شاعر عباس تابش کا شعر بھی ذہن میں آتا ہے:
ہمارے پاؤں الٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے
خیر یہ تو مقطع میں آپڑی سخن گسترانہ بات ہے اس لیے اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں اور بات کرتے ہیں بھٹو دور کی چند ترامیم کی جن کے پہلو بہ پہلو واقعات کا بیان بھی ہوگا، تاکہ ماضی کی روشنی میں ہم اپنا حال دیکھ سکیں۔
سب سے پہلے چوتھی آئینی ترمیم کی بات کر لیتے ہیں جس کے ذریعے حکومت نے ہائیکورٹ سے حفاظتی نظر بندی ختم اور نظر بند حضرات کو ضمانت پر رہا کرنے کا اختیار چھین کر سیاسی مخالفین کے عدالتی ریلیف کا راستہ بند کردیا تھا۔
ممتاز قانون دان حامد خان نے اپنی کتاب ’پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ یہ ترمیم بڑے افسوسناک انداز سے منظور ہوئی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن ارکان ترمیم کے اس حصے پر خاص طور پر بحث کرنا چاہتے تھے جس میں ہائیکورٹس کے اختیارات میں تخفیف کی گئی تھی، لیکن انہیں بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا، اسمبلی کے سیکیورٹی اسٹاف نے انہیں ایوان سے نکال باہر کیا اور ان کی غیر موجودگی میں ترمیم منظور کرلی گئی۔
پانچویں آئینی ترمیم میں ججوں کا ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں تبادلہ ممکن بنایا گیا۔ موجودہ حکومت بھی مجوزہ آئینی ترمیم میں یہی کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کا مقصد ججوں پر دباؤ بڑھانا اور تبادلوں سے ناپسندیدہ ججز کی تادیب کرنا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر صلاح الدین نے ڈان اخبار میں اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ ججوں کے تبادلے کی شق اٹھارویں ترمیم میں انہی پارٹیوں نے ختم کی تھی جنہوں نے اب اسے آئینی پیکیج میں شامل کیا ہے۔
پانچویں ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی مدت 5 سال اور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد 4 سال کردی گئی تھی جس کا اطلاق اس وقت کے چیف جسٹس صاحبان پر بھی ہونا تھا۔
یوں تو ان شقوں کی وجہ سے پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس غلام صفدر شاہ کو بھی عہدے سے دستبردار ہونا پڑا لیکن حکومت کا اصل نشانہ جسٹس سردار محمد اقبال تھے جن کا چیف جسٹس کے طور پر 4 سال کا عرصہ پورا ہونے کو تھا۔ وہ چاہتے تو سینیئر ترین جج کی حیثیت سے کام کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ریٹائرمنٹ لینے میں عافیت جانی۔
پانچویں آئینی ترمیم سے حکومت کو ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ جانے سے انکاری جج فارغ کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا۔ جسٹس سردار اقبال اور جسٹس مولوی مشتاق کا طرزِ عمل اس آئینی شق کا جواز فراہم کرتا تھا۔ دونوں کو سپریم کورٹ کا جج بننے کی بجائے لاہور ہائیکورٹ میں اپنی حاکمیت زیادہ عزیز تھی، اس لیے ان سے 3 جونیئر جج سپریم کورٹ چلے گئے اور یہ ہائیکورٹ میں خودی کو بلند کرتے رہے۔ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ وسیع تر اختیارات اور طنطنے کی وجہ سے ان کے لیے باعثِ کشش تھا۔ حامد خان نے لکھا ہے کہ ان 2 ججوں نے لاہور ہائیکورٹ کو گروپ بندی کا گڑھ بنا دیا تھا اور ان کی لڑائی نے ججوں اور وکیلوں کو بھی تقسیم کردیا تھا۔
جسٹس سردار اقبال سے بھٹو حکومت کی ناراضی کی وجہ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار سے اختلافات تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس وقت لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے اور ان معاملات کو قریب سے دیکھ بھی رہے تھے اور ان کا حصہ بھی تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’اپنا گریباں چاک‘ میں اٹارنی جنرل اور جج صاحب میں اختلاف کی ایک بڑی وجہ یہ لکھی ہے کہ یحییٰ بختیار اپنے کسی وکیل دوست کو جج لگوانا چاہتے تھے لیکن ان کے دوست کے لیے گالی تصور ہونے والا لفظ استعمال کرکے جسٹس سردار اقبال نے اسے جج بنانے سے صاف انکار کردیا تھا۔ یہ جواب اٹارنی جنرل کو بہت گراں گزرا اور پھر وہ اپنی سے کر گزرے۔ اس سے پہلے مگر یہ بھی ہوا کہ بھٹو دور میں عدلیہ کو مراعات کے ذریعے قابو کرنے کی کوششوں میں سردار اقبال چیف جسٹس کی حیثیت سے معاون رہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس معاملے پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ہے:
’بھٹو حکومت ججوں کو مراعات دے کر اپنی طرف کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ چیف جسٹس سردار اقبال ججوں کو مختلف سہولتیں دلانے میں پیش پیش تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ججوں کی تنخواہ تو وہی رہی اور اور ٹیکس بھی صرف اسی پر لگتا رہا، لیکن سہولتیں ٹیکس سے مبرا تھیں۔ ہر جج کو نئی موٹر کار ملی۔ ڈرائیور، مالی اور 2 اضافی نائب کورٹ کی تنخواہیں، پیٹرول، ٹیلی فون، بجلی، پانی اور گیس کے بل ہائیکورٹ کی طرف سے ادا کیے جانے لگے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جج اپنی استعمال کردہ موٹر کار کم قیمت پر خرید کر گھر لے جاسکتا تھا، وغیرہ‘۔
جاوید اقبال نے کراچی میں جیورسٹ کانفرنس کے موقع پر ڈنر میں وزیراعظم بھٹو کے ججوں کو ’مائی لارڈیز مائی لارڈیز‘ کہہ کر ان کا ٹھٹھا اڑانے کا ذکر بھی کیا ہے جس کا چیف جسٹس پاکستان جسٹس حمودا الرحمان نے خاصا برا مانا تھا۔
جسٹس سردار محمداقبال کے بعد نئے چیف جسٹس کے تقرر کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ 1970 کے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر جاوید اقبال کو ہرایا تھا۔ اس سیاسی معرکہ آرائی کے بعد بھی بھٹو کا دل جاوید اقبال کی طرف سے صاف ہی رہا۔ انہوں نے فرزندِ اقبال کو جج کی حیثیت سے کنفرم کرنے سے پہلے پارلمینٹ کا حصہ بننے کی آفر دی، انکار پر بطور جج کنفرم کردیا۔ جسٹس سردار اقبال کے بعد لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے لیے بھٹو نے ڈاکٹر جاوید اقبال کا نام تجویز کیا جس پر ان کے بقول انہوں نے اس لیے صاد نہیں کیا کہ وہ سینیارٹی میں چودھویں نمبر پر تھے۔ انہوں نے اس عہدے کے لیے سب سے سینیئر جج مولوی مشتاق کی سفارش کی۔ یہ نام اٹارنی جنرل کو کسی صورت قبول نہ تھا، ادھر مولوی مشتاق اس منصبِ جلیلہ کے لیے اتاولے ہورہے تھے اور ایوب دور میں بھٹو کو رہا کرنے کا احسان بھی جتلا رہے تھے لیکن قرعہ فال یحییٰ بختیار کے قریبی دوست جسٹس اسلم ریاض حسین کے نام نکلا جن کی شہرت ایک کمزور جج کی تھی اور سنیارٹی میں بھی وہ آٹھویں نمبر پر تھے۔ اس پر مولوی مشتاق بڑے جزبزہوئے۔ نئے چیف جسٹس کے ماتحت کام کرنا انہیں اپنی شان کے خلاف لگا اور وہ لمبی چھٹی پر ملک سے باہر چلے گئے۔
اسلم ریاض حسین نے معروف صحافی سہیل وڑائچ کو انٹرویو میں جاویداقبال کے چیف جسٹس نہ بننے کی وجہ وزیر قانون ملک اختر کو قرار دیا ہے۔
ان کے بقول ’ملک اختر بھاٹی کے رہنے والے تھے اور ڈاکٹر جاوید اقبال کے بہنوئی میاں صلاح الدین صلی کے سیاسی مخالف تھے اس لیے وہ ڈاکٹر جاوید اقبال کی میاں صلی سے رشتہ داری کی وجہ سے انہیں نہیں لگنے دینا چاہتے تھے‘۔
ضیاالحق کے مارشل لا کے بعد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان نے گورنر کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس سے ضیا کو اندازہ ہوگیا کہ ان کے آئندہ کے منصوبوں میں عدلیہ مزاحمت نہیں کرے گی۔ ان ججوں کی تابعداری سے متاثر ہوکر ضیا نے انہیں مکمل گورنر کے اختیارات سونپ دیے۔
جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کے بقول ’جب جولائی 77 میں چیف جسٹس قائم مقام گورنر بن گئے تو اس سے خود بخود 1973 کا آئین ختم ہوکر رہ گیا‘۔
اسلم ریاض حسین بھی گورنر پنجاب بنے، عدالتِ عالیہ کے معزز جج صاحب کے خیالاتِ عالیہ کا اندازہ کرنے کے لیے ان کا ایک فرمودہ ملاحظہ کریں:
’جنرل ضیاالحق بڑے ہی زیرک انسان تھے، وہ قانون کو بہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔ فوجی سیاستدانوں سے زیادہ لائق ہوتے ہیں، جنرل ضیاالحق سے جب کوئی قانونی یا آئینی نکتہ زیر بحث آتا تو میں دو کتابیں لے کر جاتا تھا کہ وہ خود پڑھ سکیں لیکن جنرل ضیا کہتے کہ نہیں آپ پڑھیں اور وہ معاملے کو فوراً سمجھ جاتے‘۔
اسلم ریاض حسین نے بعد میں پی سی او کے تحت حلف اٹھایا۔ سپریم کورٹ کے جج رہے۔ ضیاالحق نے انہیں چیف جسٹس آف پاکستان بننے کی آفر دی، اس بات کے وہ خود راوی ہیں۔ مولوی مشتاق ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس پلس چیف الیکشن کمشنر بن گئے۔ بھٹو سے بدلہ لینے کے لیے انہوں نے عدالت کا فورم استعمال کیا۔
پانچویں آئینی ترمیم جس کا مقصد ناپسندیدہ چیف جسٹس سے جان چھڑا کر اپنی مرضی کے جج کو منصب دلانا تھا اس کا نتیجہ کیا نکلا وہ آپ کے سامنے ہے۔
اب آجاتے ہیں چھٹی آئینی ترمیم پر جسے بھٹو حکومت نے بڑی عجلت میں پاس کیا۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں ترامیم کو عجلت میں منظور کرانے کی بھی تاریخ ہے اور مسلم لیگ ن کی حکومت کا مجوزہ آئینی پیکیج اسی کا تسلسل ہے۔
چھٹی آئینی ترمیم 1977 کے الیکشن سے پہلے اسمبلی کے آخری اجلاس میں منظور ہوئی جس کا مقصد صرف چیف جسٹس یعقوب علی کو فائدہ پہنچانا تھا۔ یعقوب علی جنہیں 1977 کے وسط میں 65 برس کی عمر میں ریٹائر ہوجانا تھا وہ اب نئی آئینی ترمیم کے بعد 3 سال مزید چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہو کر 5 سالہ میعاد پوری کرسکتے تھے۔ حامد خان نے ’اے ہسٹری آف دی جوڈیشری ان پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ جسٹس یعقوب نے بھٹو کو کہہ کہہ کر مدتِ ملازمت میں اضافہ کروایا جس کے لیے حکومت کو چھٹی آئینی ترمیم کرنی پڑی۔
جسٹس یعقوب علی نے عاصمہ جیلانی کیس میں یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا تھا اور مارشل لا پر سخت تنقید کی تھی۔ اس سے جج کی حیثیت سے تاریخ میں انہیں جو وقار حاصل ہوا تھا اسے مدتِ ملازمت میں توسیع نے گھٹا دیا۔
ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو انہیں اندازہ ہوگیا کہ جسٹس یعقوب علی ان کی امیدوں پر پورا نہیں اتریں گے تو انہوں نے وہ آئینی ترمیم ہی ختم کردی جس کی وجہ سے انہیں چیف جسٹس کی حیثیت سے مزید 3 سال خدمات انجام دینے کا موقع ملا تھا۔ ان کی جگہ شیخ انوارالحق چیف جسٹس بن گئے جن کا مولوی مشتاق گروپ سے تعلق تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جس بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی اس کی سربراہی مولوی مشتاق نے کی اور سپریم کورٹ میں یہ ذمہ داری جسٹس انوارالحق نے بڑے احسن طریقے سے نبھائی، شیخ انوارالحق اور مولوی مشتاق سے ضیاالحق کا ’جالندھری‘ کنکشن بھی تھا۔
بھٹو کی پھانسی کے بعد مولوی مشتاق اونچی ہواؤں میں تھے لیکن فوجی حکومت نے ان سے جو کام نکالنا تھا وہ نکال چکی تھی، اور وہ لاہور ہائیکورٹ جہاں سے وہ نکلنے کے لیے تیار نہیں تھے انہیں وہیں سے زبردستی نکالا گیا۔ جس سپریم کورٹ میں جانے سے ان کی جان جاتی تھی اس میں انہیں قائم مقام جج بنا دیا گیا۔ ہائیکورٹ سے بے آبرو ہوکر نکلنے کے بعد بھی ان کی تذلیل کا سفر رکا نہیں۔ 1981 میں ضیاالحق نے ججوں سے پی سی او کے تحت حلف لینے کافیصلہ کیا، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس انوارالحق کے بعد سینیئر ترین جج جسٹس دراب پٹیل نے حلف نہ لینے کا اصولی فیصلہ کیا، جس میں ان کے ساتھ ایڈہاک جج فخرالدین جی ابراہیم بھی شامل تھے۔ مولوی مشتاق پی سی او کے تحت حلف لینے کے وکیل تھے۔ دوسرے ججوں کو اس ’کار خیر‘ کے لیے راضی کررہے تھے۔ ادھر ان کے مربی کچھ اور سوچ رہے تھے۔ ضیاالحق نے چیف جسٹس انوارالحق کو ساتھی ججوں کے ساتھ حلف اٹھانے کی تاکید کی تو ساتھ میں یہ بھی کہاکہ ان ججوں میں مولوی مشتاق شامل نہیں ہوں گے۔ شیخ انوارالحق نے ان کی سابقہ خدمات کا حوالہ دیا تو بھی ضیاالحق آمادہ نہ ہوئے۔ انوار الحق نے کہاکہ اگر مولوی مشتاق کو حلف نہ دیا گیا تو وہ بھی حلف نہیں اٹھائیں گے، اس پر بھی ڈکٹیٹر کا دل نہیں پسیجا اور یوں مولوی مشتاق کے ساتھ ساتھ اس چیف جسٹس کی بھی چھٹی ہوگئی جس نے بھٹو کو پھانسی کی سزا دی تھی۔ نصرت بھٹو کیس میں ضیاالحق کی فوجی حکومت کے حق میں فیصلہ دے کر اسے آئین میں ترمیم کی اجازت دی تھی۔ ضیاالحق نے صدر بننے کی ٹھانی تو انہی سے حلف لیا تھا۔
اور ہاں وہ بھی ایک زمانہ تھا جب ضیاالحق کی غیر موجودگی میں جسٹس انوارالحق قائم مقام صدر کے عہدے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس بارے میں سینیئر بیوروکریٹ ظفر محمود نے ’سرکار کی رہ گزر سے‘ میں ایک واقعہ لکھا ہے وہ زرا ملاحظہ ہو :
’انسانی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کے لیے مقتدر اداروں کے پاس بہت حربے ہوتے ہیں۔ ضیاالحق نے عدالت کی بخشی ہوئی طاقت سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو قائم مقام صدر کا عہدہ دیا۔ وہ جسٹس انوارالحق کو قصرِ صدارت میں بٹھا کر لمبے عرصے کے لیے بیرون ملک چلے جاتے۔ کیپٹن اظہر صدارتی باڈی گارڈ کے انچارج گورنمنٹ کالج میں ہمارے کلاس فیلو تھے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد ملے تو قصہ سنایا۔ ضیاالحق کی ہدایت تھی کہ چیف جسٹس صاحب کو مکمل پروٹوکول دیا جائے۔ قصرِ صدارت میں اُن کی آمد پر صدارتی باڈی گارڈ کا سجا سجایا خوبصورت دستہ، دُلکی چال میں رقصاں گھوڑوں کے ساتھ اُنہیں گارڈ آف آنر دیتا۔ وہ مسحور ہو جاتے۔ یہ تقریب ٹیلی وژن پر نشر ہوتی۔ واپسی پر ضیاالحق کرید کرید کر کیپٹن اظہر سے پوچھتے کہ چیف جسٹس نے پروٹوکول کو کتنا انجوائے کیا۔
انا کی تسکین کا یہ کھیل اُس وقت تک جاری رہا جب تک بھٹو کو پھانسی نہ ملی۔ اُس کے بعد ’نکل جاتی ہے جب خوشبو تو گل بیکار ہوتا ہے‘، ضیاالحق اپنا PCO لے آئے۔ انوارالحق کی پھولی ہوئی انا تنزلی کی تذلیل قبول نہ کر پائی۔
ضیاالحق نے پاکستان سے باہر بھی جسٹس انوارالحق کو بے وقار کیا۔ انہیں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے لیے نامزد کیا اور بقول جسٹس فخر الدین جی ابراہیم انوارالحق کو اس کی کنوسننگ اور بیرون ملک دوروں کے لیے فنڈز بھی دیے گئے۔
یہ سب بے سود گیا۔ بھٹو کیس اور نصرت بھٹو کیس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا، ان کو جو دو ووٹ پڑے ان میں سے ایک پاکستان کی طرف سے تھا۔
مولوی مشتاق کے لیے ججی سے محرومی بڑی اذیت ناک تھی اوپر سے اپنے حریفوں کا اقبال بلند ہوتے دیکھنا ان کے لیے سوہان روح تھا۔ ان کے کٹر مخالف جسٹس شمیم حسین قادری نے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے ان کا خلا پر کردیا تھا۔ ادھر 1983 میں ضیاالحق نے جسٹس محمد سردار اقبال کو پہلا وفاقی محتسب بنا دیا تھا۔ مولوی مشتاق راندہ درگاہ ہوکر رہ گئے تھے۔
یہ باتیں زرا پھیلا کر کرنے کا مقصد حکمرانوں اور ججوں کے انداز فکر سے روشناس کروانا ہے۔ حکومتوں کے لیے ان حکایتوں میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اپنی پسند کے جج لا کر اور ناپسندیدہ جج ہٹا کر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ دوسری طرف وہ جج صاحبان جو اپنے منصب کی عزت کا خیال نہیں رکھتے، انصاف سے بڑھ کر کرسی کو عزیز جانتے ہیں اور طاقت سے مقاومت کے بجائے مفاہمت کا راستہ چنتے ہیں ان کے حصے میں رسوائی ہی آتی ہے۔
حکومتوں کو اپنے معاملات شفاف بنانے کی ضرورت ہے لیکن کسی خاص وقت میں حکومت یا کسی شخصیت نے کسی جج سے زیادتی کی ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ متاثرہ جج انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر پرانے حساب چکانا شروع کردے۔ وہ جج ہی کیا جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر فیصلہ نہ کرسکے۔
حکومتوں کی عدلیہ کی آزادی سلب کرنے والی آئینی ترامیم ہوں یا نام نہاد آئینی پیکیج ان کی حمایت نہیں کی جاسکتی کیونکہ ان کی ضرورت اسی وقت پڑتی ہے جب حکومت ججوں سے ناراض اور مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنا چاہتی ہو۔ لیکن عدلیہ کو اپنے ماضی کا جائزہ لینا چاہیے جس میں اس نے ہمیشہ ڈکٹیٹروں اور غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا اور سویلین وزرائے اعظم کو نااہل کیا ہے۔ ان کی اقتدار سے بے دخلی کو آئینی جواز فراہم کیا ہے، اس لیے جب عدلیہ سے ڈسی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو بھلے سے ان کے ناپسندیدہ جج ریٹائر ہوچکے ہوں وہ بطور ادارہ عدلیہ کے پر کاٹنے کی کوشش کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعد اب مسلم لیگ ن کی سپریم کورٹ سے شکایتوں کا سلسلہ بھی ظفر علی شاہ کیس سے نواز شریف کی تاحیات نااہلی تک پھیلا ہوا ہے، عمران خان کے پاس شکایتوں کا اپنا دفتر ہے۔
جسٹس منیر، شیخ انوارالحق، ارشاد حسن خان، افتخار محمد چوہدری، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ جیسے ججوں کے فیصلوں کے ہماری سیاست پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ ان منصفوں کے کتنے ہی ایسے فیصلے ہیں جن سے سیاستدانوں کی عدالت پر بداعتمادی میں اضافہ ہوا اور انہوں نے مختلف ادوار میں عدلیہ کو ریاست کے ستون کی بجائے ایسے حریف کے طور پر دیکھا جو اسٹیبلشمنٹ کے جونیئر پارٹنر کے طور پر کام کرتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ غلط بات بھی نہیں لیکن اس میں سیاستدان بھی ذمہ دار ہیں۔ وہ عدلیہ میں اگر مضبوط اور اچھی ساکھ کے حامل جج آنے کی راہ ہموار کریں تو وہ مشکل وقت میں آئین اور جمہوریت کا ساتھ دیں گے کیونکہ کمزور جج طاقت کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے، چاہے وہ آپ کے منظورِ نظر ہی کیوں نہ ہوں۔
جسٹس ارشاد حسن خان نے سجاد علی شاہ کو ہٹانے میں نواز شریف حکومت کا ساتھ دیا تھا لیکن پھر انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کو ہی جائز قرار نہیں دیا بلکہ چیف الیکشن کمشنر بن کر فراڈ ریفرنڈم اور دھاندلی زدہ عام انتخابات بھی کروائے۔ جسٹس ملک محمد قیوم کو مسلم لیگ (ن) نے محترمہ بینظیر بھٹو کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا اور پھر قوم نے انہیں جنرل پرویز مشرف کے اٹارنی جنرل کے روپ میں بھی دیکھا۔
پارلیمنٹ اور عدلیہ کو ٹکراؤ سے بچ کر ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بننا چاہیے، اگر یہ لڑتے رہے تو اس سے فائدہ غیر جمہوری قوتوں، جتھوں اور نان اسٹیٹ ایکٹرز کو ہو گا جنہوں نے پہلے ہی ریاست کو یرغمال بنا رکھا ہے۔