لاہور ہائیکورٹ نے ڈپٹی کمشنر لاہور کو تحریک انصاف کی جلسہ کی اجازت کے لیے درخواست پر فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا، جسٹس فاروق حیدر کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر قانون کے مطابق آج شام 5 بجے تک درخواست پر فیصلہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں:لاہور جلسہ: 21 ستمبر کو روکا گیا تو جیلیں بھر دیں گے، عمران خان کا اعلان
جسٹس فاروق حیدر کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی کو لاہور میں جلسے سے اجازت سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی، سرکاری وکیل نے پی ٹی آئی کی جلسے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر مسترد کرنے کی استدعا کی، کوینکہ عالیہ حمزہ نے جلسے کی اجازت کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع ہی نہیں کیا۔
سرکاری وکیل کے مطابق اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی عمر ایوب اور اپوزیشن پنجاب اسمبلی نے بھی جلسے کی اجازت کے لیے درخواست دی تھی تاہم حساس اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں جلسے کی اجازت نہیں دی گئی، دوسری جانب پی ٹی آئی کی حالیہ جلسوں میں عدلیہ اور ریاست مخالف تقاریر ریکارڈ کا حصہ ہیں۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی جلسہ ہوگا یا نہیں، لاہور ہائیکورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش
سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے جلسے میں صحافیوں کے خلاف نامناسب زبان استعمال ہوئیں، اشتہاری ملزم حماد اظہر نے بھی تقریر کی، علی امین گنڈا پور نے بھی نامناسب الفاظ کا استعمال کیا۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے عالیہ حمزہ کے پارٹی عہدیدار ہونے کی بابت دریافت کیا تو وکیل اشتیاق چوہدری نے بتایا کہ عالیہ حمزہ پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کی رکن ہیں، جسٹس طارق ندیم بولے؛ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ عالیہ حمزہ نے جلسے کے لیے کوئی درخواست نہیں دی جبکہ قانون کے مطابق درخواست دینا ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: 21 ستمبر: پی ٹی آئی لاہور جلسے کی تیاریاں کون کروا رہا ہے؟
اس موقع پر عدالت نے ڈپٹی کمشنر لاہور سے استفسار کیا کہ عالیہ حمزہ نے جلسے کے لیے کوئی درخواست دی ہے، جس پر ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ عالیہ حمزہ نے کوئی درخواست نہیں دی، جسٹس فاروق حیدر بولے؛ آپ کے سیکریٹری جنرل نے تو 22 ستمبر کو جلسے کی اجازت مانگی ہے لیکن آپ نے 21 ستمبر کو جلسے کی اجازت مانگی ہے۔
عدالتی استفسار پر وکیل اشتیاق چوہدری نے بتایا کہ عالیہ حمزہ اس وقت بھی ہاؤس اریسٹ جیسی صورتحال سے دوچار ہیں، جس پر جسٹس فاروق حیدر نے کہا کہ آپ ابھی جلسے کی اجازت کے لیے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دیں، ہم 15 منٹ میں دوبارہ آئیں گے، آپ ہمارے سامنے درخواست دیں، ڈپٹی کمشنر آج ہی درخواست پر فیصلہ کریں گے۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی کا لاہور جلسہ روکنے کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دائر
وقفہ کے بعد دوبارہ سماعت کے موقع پر جسٹس فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ یہ ریکارڈ پر ہے کہ درخواست گزار عالیہ حمزہ نے جلسے کی اجازت کےلیے ڈپٹی کمشنر کو کوئی درخواست نہیں دی تھی، لیکن عدالتی حکم پر ابھی ہاتھ سے لکھی درخواست ڈپٹی کمشنر کو دی گئی ہے، ڈپٹی کمشنر شام پانچ بجے تک جلسے کی اجازت سے متعلق درخواست پر فیصلہ کریں۔
چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس طارق ندیم نے ریمارکس دیے کہ یہ ملک ہے تو سب ہیں، آج جو اقتدار میں ہیں ماضی میں وہ حزب اختلاف میں تھے، آپ اس وقت بھی سروس میں تھے آج بھی سروس ہیں، ہر پندرہ 20 دن بعد اس طرح کی کوئی رٹ دائر ہوجاتی ہے، کیا یہ بہتر نہ ہوگا ہم ہر ضلع میں جلسے کےلیے ایک جگہ مختص کردیں۔
مزید پڑھیں:لاہور جلسے کی اجازت نہ ملنے پر تحریک انصاف کا عدالت سے رجوع
’لاہور بڑا شہر ہے یہاں جلسے کےلیے دو تین جگہ مختص کردیں، یہاں صورتحال یہ ہے کہ آگے جلسہ ہورہا ہوتا ہے پپچھے جنازے رکے ہوتے ہیں، حکومتیں تو آتی جاتی رہی ہیں، کوئی ایسا کام کر جائیں جس سے آپ لوگ کو یاد رکھیں۔‘
جسٹس طارق ندیم نے ریمارکس دیے کہ آج یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جلسے کی اجازت نہیں مل رہی کل وہ کہہ رہے تھے، دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی ہم آج بھی یہاں پھنسے ہیں، بولنے کی آزادی نہیں، جلسے کی اجازت نہیں، اب دیکھیں سارا کا سارا سسٹم بند ہوا پڑا ہے، تمام افسران یہاں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں:پارٹی اسٹریٹ موومنٹ کی تیاری کرے، جو بھی ہوگاذمہ دار حکومت ہو گی، عمران خان
آئی جی پنجاب پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے جسٹس فاروق حیدر نے کہا کہ آپ سے یہ توقع نہیں کرتے کہ لوگوں کو غیر قانونی ہراساں کیا جائے، آئی جی پنجاب پولیس نے بتایا کہ پولیس کی جانب سے کوئی ہراسمنٹ نہیں کی جارہی، جس پر لطیف کھوسہ بولے؛ جھوٹ مت بولیے میرے گھر کے باہر ایک ہفتے سے پولیس کھڑی ہے۔
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ایڈوکیٹ ندیم سرور کی جانب سے تحریک انصاف کا جلسہ رکوانے کی الگ درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر مسترد کردی ہے، جسٹس فاروق حیدر نے جلسہ رکوانے کی درخواست خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہیں۔