ہم لوگوں نے بھی کیسے کیسے خوف پال رکھے ہیں۔ آپ نے ایسے جملے اکثرسنے ہوں گے۔ ’اپنی خوشیوں کو اپنے تک محدود رکھیں ان کا اظہار مت کریں‘، ’ خوشیوں کے لمحوں کی تصاویر مت پوسٹ کیا کریں اس طرح نظر لگنے کا ڈر ہوتا ہے‘۔ ’اگر آپ کی قوت خرید ہے بھی تو مہنگی گاڑی مت لیں، اپنی دولت کی نمائش مت کریں‘۔ مہنگے اور اچھے کپڑے مت پہنیں، کسی کی نظر لگ سکتی ہے‘۔
میں نے چند دن قبل شادی کی سالگرہ کے موقع پر ایک تصویر سوشل میڈیا پر شئیر کی اورساتھ شریک سفر عنبرین صلاح الدین کی تعریف کی اور اسی کا شعر بھی پوسٹ کیا کہ
اک پھول کا تعویذ بنا رکھا ہے ہم نے
ہر باغ کی خوشبو ہے خبر گیر ہماری
توجہاں بہت دوستوں نے محبتوں اور دعاؤں سے نوازا وہیں کچھ ہمدردوں نے پوسٹ پر اور ذاتی پیغامات میں یہ مشورہ دیا کہ اس طرح خوشی کا اظہار نظرِ بد کا سبب بنتا ہے۔ اس میں احتیاط برتا کریں۔ تو مجھے یونہی خیال آیا کہ ایسا کیوں ہے؟کیا ہم لوگ خوشی سے دور بھاگنے لگ گئے ہیں؟ خوش ہونے میں کون سی برائی ہے؟ کہیں ہم دوسروں کو پریشان اور دکھی دیکھنا تو نہیں چاہتے۔ مجھے دوستوں کی نیت پر بالکل شک نہیں لیکن یہ ہمارا رویہ کیوں بن چکا ہے۔ وہ جو ایک فلم کا معروف ڈائیلاگ ہے کہ دوست اوّل آ جائے تو خوشی ہوتی ہے، فیل ہو جائے تو دہری خوشی ہوتی ہے۔ کہیں سچ تو نہیں؟
مجھے کینیا سے تعلق رکھنے والا اپنا ایک پرانا دوست یاد آگیا جو بیرون ملک قیام کے دوران میرا رفیق کار تھا۔ ایک دن کافی اداس تھا اور اسے چھٹی نہیں مل رہی تھی، اسی سلسلے میں مجھ سے مدد کا طلب گار تھا، اسےایک بڑا عارضہ لاحق تھا سو اس نے مجھ سے بات کی۔ میں نے کچھ دکھ کا اظہار کیا تو برا مان گیا، کہنے لگا کیا تم مجھ پر ترس کھا رہے ہو؟حالانکہ اس کی خوشیوں کے کئی لمحات میں ہم دوست شریک ہوتے رہے تھے اور خوشی مناتے رہے تھے، جس کااس نے کبھی برا نہیں منایا۔ اس قیام کے دوران دیگر ممالک کے لوگوں کے ساتھ بھی رابطہ رہا اورمیں نے یہ مشاہدہ کیا کہ وہ لوگ خوشی تو مل کر مناتے ہیں لیکن ذاتی دکھوں میں کم ہی ہر کسی کو شریک کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ ہمیں خوشی منانے سے ڈر لگتا ہے۔ ہم رونے دھونے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ہمیں خوش ہونے سے ڈر لگنے لگا ہے۔
ایسے لوگوں کو کون سمجھائے کہ اس سے بڑی بد نظری اوربدبختی کیا ہوگی کہ آپ اپنے وسائل سے اپنی زندگی میں لطف اندوزنہ ہو سکیں۔ اپنی خوشیوں کا اور محبتوں کا اظہار نہ کر سکیں۔ ساری زندگی دولت کا حساب کتاب کرتے رہیں۔ زندگی کو ایک روکھے معمول کے مطابق گزارتے چلے جائیں، گویا آپ کوئی سانپ ہیں جسے خزانے کی رکھوالی کے لیے بھیجا گیا ہے یا آپ کوئی اور جانور ہیں جس نے صرف باربرداری کا کام کرنا ہے، دولت اکٹھی کرنی ہے اور اگلی نسلوں کی عیاشی کا سامان چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ چلیں سامان کی حد تک توبات سمجھ آ بھی سکتی ہے لیکن یہ کیا کہ محبتوں کا اظہار بھی نہ کیا جائے۔
میرا خیال ہے محبتوں کے اظہار سے انھیں ڈر لگتا ہے جن کے پاس محبت نہیں ہوتی۔ وہ جو کہاوت ہے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا بالکل درست ہے۔ آپ نے سماج کے ساتھ رہنا ہے۔ کسی رشتے کی تعریف کرنا اورمحبت کی نمائش کرنا برائی نہیں بلکہ ایک اچھی روایت ہے، اس سے کئی اور لوگوں کو تقویت ملتی ہے۔ اسی طرح صاف ستھرے اوراچھے کپڑے پہننا، گھومنا پھرنا، فطرت اور مظاہر فطرت سے لطف اندوز ہونا بھی برائی نہیں ہے۔ اور یہ کلیہ زندگی کے سب شعبوں پر لاگو ہوتا ہے۔
دوستوں کی ایک اور قسم بھی ہے، ایسے لوگ تضادات سے پر ہوتے ہیں، خودائر پورٹس پر بزنس لاؤنج کے چیک ان لگاتے ہیں، اور دوسروں کو مشورہ دیتے ہیں کہ بچے کے امتحان میں زیادہ نمبر آئے ہیں تو اسے چھپا کر رکھیں۔ یعنی دوسروں کا خوشی کا اظہارکرنا برائی ہے اورآپ کا اظہار خوشی کا محرک۔ ایسے لوگوں کو مشورہ ہے کہ آپ ایک بار دل سے خوش ہو کر دیکھیے۔ یقین جانیں آپ خود بھی سکون محسوس کریں گے اور دوسروں کا ہنسنا بھی آپ کو برا نہیں لگے گا۔ یہ مسئلہ ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ہے، ہمیں دوسروں کی زندگیوں میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ دنیا ان باتوں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ دیگر ممالک کے لوگوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ آپ کیا کر رہے ہیں، کیا کھا رہے ہیں، کیا پہن رہے ہیں۔ وہ جیو اور جینے دو کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں اور اسی لیے ہم سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم نام نہاد اخلاقیات اور ایک دوسرے کاخیال رکھنے کے دعوے دار لوگ ایک دوسرے کی زندگیاں اجیرن کیے بیٹھے ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھنا سیکھیں گے تو کوئی ڈھنگ کا کام کر سکیں گے اور حقیقت میں ایک دوسرے کے کام آ سکیں گے، نہیں تو بس کڑھتے اور جلتے رہیں گے اوراسی حال میں دنیا سے چلے جائیں گے۔