ملک کے مشکل معاشی حالات کے باعث حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں بڑا ٹیکس ہدف رکھا تھا، 1800 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے تھے، تاہم جولائی، اگست اور ستمبر میں ٹیکس ہدف حاصل میں ناکامی کے بعد منی بجٹ لانے پر کام شروع کردیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف کی وارننگز کے باوجود حکومت کا بجلی بلز میں 487 ارب روپے کی سبسڈی دینے کا منصوبہ
ذرائع کے مطابق ایک ہزار ارب روپے کا منی بجٹ لانے کی تیاریاں شروع ہیں، آئی ایم ایف سے بھی مشاورت کی جاچکی ہے، تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے فی الحال منی بجٹ لانے کی وزارت خزانہ کی تجویز مسترد کر دی ہے۔
ملک میں پہلی بار مالیاتی سال کی پہلی سہ ماہی میں بجٹ خسارہ روکنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پہلے 2 ماہ جولائی اور اگست میں 110 ارب روپے سے زائد کا شارٹ فال ہے، اس شارٹ فال کو پورا کرنے کے لیے منی بجٹ لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، ذرائع کے مطابق نومبر تک منی بجٹ لانے کا امکان ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف قرض فراہمی پر رضامند، رقم قسطوں میں ملے گی، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
وی نیوز نے مختلف معاشی ماہرین سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا وجہ ہے کہ منی بجٹ کی باتیں ہونا شروع ہو گئی ہیں؟ اور اس بجٹ سے کیا مہنگائی میں اضافہ ہو گا؟
وزیراعظم نے منی بجٹ کی تجویز کو مسترد کر دیا
معاشی تجزیہ کار شہباز رانا نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منی بجٹ ان ٹیکس اقدامات کو کہا جاتا ہے جو حکومت جون کے بجٹ کے بعد نئے ٹیکس اقدامات لیتی ہے، ماضی میں منی بجٹ 30 یا 40 ارب روپے کا ہوتا تھا، لیکن اب جو بھی منی بجٹ ہے وہ 200 یا 300 ارب روپے کا ہوتا ہے، ایف بی آر نے منی بجٹ کی تیاریاں تو کی تھیں تاہم گزشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف اور ایف بی آر کے نمائندے کے ساتھ ہونے والی میٹنگ میں وزیراعظم نے منی بجٹ کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
بچوں کے دودھ سمیت ہر شے پر ٹیکس عائد کیا گیا
شہباز رانا نے کہا کہ حکومت نے رواں مالی سال کا جس وقت ٹیکس ہدف رکھا تھا تو اس وقت تمام معاشی ماہرین نے کہا تھا کہ جو ٹیکس ہدف رکھا جا رہا ہے اسے حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا، پہلے 2 ماہ جولائی اور اگست کا ٹیکس کلیکشن کا ہدف 1554 ارب روپے تھا، اس میں ان کو تقریباً 1443 ارب روپیہ ٹیکس حاصل ہوا ہے اور 111 ارب روپے کا شارٹ فال رہا ہے، حکومت نے ٹیکس ہدف میں کامیابی کے لیے بچوں کے دودھ سمیت ہر شے پر ٹیکس عائد کیا گیا، سیلری پیشہ افراد پر بھاری ٹیکس عائد کیے گئے۔ بہت بڑا شارٹ فال ہے۔
پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس عائد کیا جائیگا
شہباز رانا نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں 1800 ارب روپے کے نئے ٹیکس نافذ کیے گئے ہیں، اس کے باوجود اب منی بجٹ لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں اور پھر سے ان لوگوں پر مزید ٹیکس عائد کیا جائے گا جو پہلے سے ٹیکس دے رہے، ٹیکس نادہندگان کو حکومت نے چھوٹ دے رکھی ہے اور ان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔
شہباز رانا کے مطابق منی بجٹ میں کھاد پر 5 روپے فی کلو ٹیکس، ہر امپورٹڈ اشیاء پر جو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں ایک فیصد اضافہ کیا جائے گا، پروفیشنل سروسز کے ٹیکس میں مزید اضافہ کیا جائے گا، اس سے بہت سے لوگ متاثر ہوں گے۔ اگر حکومت ٹیکس ٹارگٹ کم کر کہ حکومتی اخراجات میں کمی کرے تو سے بجٹ خسارہ کم اور معاشی حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران چین کا مسلسل تعاون قابل تحسین ہے، وزیراعظم شہباز شریف
شہباز رانا نے کہا کہ حکومت 4 ذرائع انکم ٹیکس ، سیلز ٹیکس، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹمز ڈیوٹی سے ٹیکس حاصل کرتی ہے اور بجٹ میں ایک ہدف رکھتی ہے، رواں مالی سال کے پہلے 2 ماہ میں اس ہدف میں سے صرف انکم ٹیکس کا اہداف حاصل ہوا ہے، انکم ٹیکس کا ہدف 580 ارب روپے کا ہدف تھا جبکہ 610 ارب روپے وصول کیے گئے، سیلز ٹیکس کا ہدف611 ارب روپے تھا جو کہ پورا نہ ہو سکا، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 135 ارب روپے تھا جس میں سے 97 ارب جمع کیا گیا، کسٹم ڈیوٹی کا ہدف 228 ارب جس میں 170 ارب جمع کیا۔
حکومت ٹیکس ہدف حاصل نہیں کر سکی
معاشی تجزیہ کار شعیب نظامی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں رکھے گئے ٹیکس اہداف کو حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد ٹیکس آمدن بڑھانے کو منی بجٹ کہتے ہیں۔ منی بجٹ کے لیے پارلیمنٹ سے فائننس بل منظور کرایا جاتا ہے ۔ منی بجٹ بالکل بجٹ کی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں میں پیش ہوتا ہے اور اس کی شق وار بریفنگ ہوتی ہے قائمہ کمیٹیوں سے منظور ہونے کے بعد اس سے پارلیمنٹ سے منظور کرایا جاتا ہے، اس مرتبہ بھی مالی سال کے پہلے 2 ماہ میں حکومت ٹیکس ہدف حاصل نہیں کر سکی ہے، اور اب منی بجٹ لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں،می بجٹ میں نئے ٹیکسز عائد ہوں گے اور مہنگائی بڑھے گی۔
سیلز ٹیکس اور امپورٹ ڈیوٹی میں تبدیلیوں کا مسودہ بھی تیار کرلیا گیا
شعیب نظامی نے کہا کہ منی بجٹ کے لیے ایف بی آر، وزارت خزانہ اور دیگر اداروں نے فریم ورک تیار کرلیا، اس کے علاوہ انکم ٹیکس ودہولڈنگ، سیلز ٹیکس اور امپورٹ ڈیوٹی میں تبدیلیوں کا مسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے، نئے ٹیکسز آئی ایم ایف حکام سے مشاورت سے لاگو کیے جائیں گے، اس کے علاوہ منی بجٹ میں 12 اقسام کی انکم پر ٹیکس استثنیٰ ختم کیا جائے گا۔
اس وقت حکومت کو منی بجٹ کی ضرورت نہیں
معاشی تجزیہ کار خرم شہزاد نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں منی بجٹ نہیں آنے والا ہے، ابھی تو 3 ماہ قبل ہی حکومت نے بجٹ پیش کیا ہے، اس وقت حکومت کو منی بجٹ کی ضرورت نہیں ہے، اس وقت سب توجہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر ہے۔ نومبر میں اگر معاہدہ ہو جاتا ہے تو سب معاملات اچھے ہو جائیں گے۔