لاہور ہائیکورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کالعدم قرار دینے کےلیے دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کالعدم قرار دینے کے لیے شہری منیر احمد کی درخواست پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے سماعت کی، وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصر احمد پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:صدر مملکت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر دستخط کردیے
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل اظہر صدیق نے موقف اختیارکیا کہ صدارتی آرڈیننس بدنیتی پر مبنی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم یا زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔
اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ ہمیشہ یہی کہاجاتا رہا ہے کہ چیف جسٹس اپنی مرضی سے مقدمات لگاتے ہیں، ایکٹ کےتحت چیف جسٹس کو ایک نمائندہ کمیٹی میں شامل کرنے کا اختیار دیاگیا، اسمبلی کی موجودگی میں آرڈیننس کا اجرا قانون کےمطابق نہیں، آرڈیننس انتہائی ایمرجنسی حالات میں ہی نافذ کیاجاسکتاہے۔
درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آرڈیننس عدلیہ اور بنیادی حقوق کی آزادی کامعاملہ ہے، حکومت آرٹیکل 63 کی ہیت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے، لہذا عدالت پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کو کالعدم قرار دے اور پٹیشن کے حتمی فیصلئے تک عمل درآمد روکنے حکم جاری کرے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نصر احمد نے درخواست مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے بتایا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کےججز سے متعلق ہے لہذا پٹیشن اعلی عدلیہ میں دائرہونی چاہیے، ہائیکورٹ اپیلٹ عدالت ہے یہ عدالت سپریم کورٹ کے اختیارات کا تعین نہیں کرسکتی۔
مزید پڑھیں:لاہور ہائیکورٹ: پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کیخلاف دائر درخواست پر اعتراض ختم
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ یہ آرڈیننس پہلے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے جبکہ اسی نوعیت کی پٹیشن پر سندھ ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے، لہذا عدالت مذکورہ درخواست کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کرے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے یانہ ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔