ڈپٹی انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد کوہاٹ میں شہید پولیس اہلکاروں کی بلٹ پروف جیکٹس کے ’غیر محفوظ‘ ہونے کے خدشات کو فی الحال مسترد کردیا ہے۔
گذشتہ پیر کو کوہاٹ میں بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ پہنے 2 پولیس اہلکاروں کی دہشتگردوں کے حملے میں شہادت کے بعد پولیس کو فراہم کردہ حفاظتی سامان کے غیر محفوظ ہونے پر تنقید سامنے آئی تھی۔
پولیس کے مطابق پیر کو کوہاٹ میں تروایح کی سیکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات دونوں اہلکاروں نے بلٹ پروف جیکٹ اور ہیملٹ پہن رکھے تھے مگر اس کے باوجود مبینہ طور پر سب مشین گن سے فائر کی گئیں گولیاں ان کے جسم میں داخل ہوکر جان لیوا ثابت ہوئیں۔
آئی جی خیبر پختونخوا پولیس اختر حیات گنڈاپور نے ڈی آئی جی انٹرنل اکاؤنٹیبلیٹی محمد سلیمان کی سربراہی میں اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔
ڈی آئی جی داخلی احتساب خیبر پختونخوا پولیس محمد سلیمان نے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ جائے وقوعہ سے دو بلٹ پروف جیکٹس اور ہیلمٹ کا فورینزک تجزیہ مکمل کرلیا گیا ہے۔
ڈی آئی جی محمد سلیمان کے مطابق صوبائی پولیس عملہ کو فراہم کردہ حفاظتی سامان دس سال قبل نورینکو کمپنی سے خریدا گیا تھا۔
’ کانسٹبل قاسم کی جیکٹ اور ہیلمٹ پر گولی لگی۔ چار بلٹ پلیٹ میں سے صرف ایک پلیٹ پر گولی لگی ہے۔ گولی جیکٹ سے آر پار نہیں ہوئی۔‘
اس موقع پر فورینزک لیب کے سربراہ ڈی آئی جی وقار احمد نے بتایا کہ 9 ایم ایم کی دو گولیاں جیکٹس پر لگیں۔ ’گولی بلٹ پروف جیکٹ کی پلیٹ سے نہیں بلکہ کپڑے میں سے گزر کر پولیس اہلکار کو لگی۔‘
اسی طرح شہید پولیس اہلکاروں کی جیکٹ اور ہیلمٹ میں گولی کے داخل ہونے کے نشانات موجود ہیں مگر خارجی نشانات یا راستے نہیں ہیں۔
ڈی آئی جی وقار احمد کے مطابق کوہاٹ میں شہید ہونیوالے دونوں پولیس اہلکاروں کو مجموعی طور پر 23 گولیاں لگی تھیں جبکہ جائے وقوعہ سے سب مشین گن، 30بور اور 9ایم ایم کے 48 خول برامد ہوئے تھے۔