تم آگ لگانا سیکھ گئے

جمعہ 7 اپریل 2023
author image

صفیہ کوثر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

انسانی تہذیب کے ارتقا میں آگ جلانے کا ہنر سیکھنا ایک اہم سنگ ِمیل ہے، ما قبل ِتاریخ کی تخیلاتی تصاویر میں لمبے لمبے گندے بالوں سے اٹے ہوئے انسان نما لوگ کسی جانور کی کھال پہن کر آگ کو حیرت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور کہیں سے بھی ہمارے آبا و اجداد نہیں لگتے ،نہ ہی ہماری طرح کے انسان ؛ بس ان کی آنکھوں کی حیرت ہمیں بچپن کی یاد دلاتی ہے۔

ویسے تو ہر انسان نے بچپن میں آگ کی تیزی ، تپش اور خطرے کا تجربہ کر رکھا ہےاور بعض بڑوں کی احتیاط پسندی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کا بچپن کیسی کیسی شرارتیں کرتے گزرا ہو گا۔

اس حوالے سے ہمارے ایک بزرگ بھی بہت مشہور ہیں، ان کے بچپن کے واقعات اساطیری داستانوں کی طرح خاندان بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ اب ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکے ہیں حالاں کہ ان کی عمر ابھی ساٹھ سال بھی نہیں ہوئی، سچ ہے کہ “ایں سعادت بزورِ بازو نیست”۔

کہا جاتا ہے کہ اپنے بچپن میں وہ پورے محلےمیں سب سے شریر مان لیے گئے تھے، ان کا نام سن کر ان کے بڑے دہل جاتے تھے، وہ کہیں نظر آ جاتے تو خواتین جوتا اتار کر پہلے ہی ہائی الرٹ ہو جاتی تھیں کہ ان کو کسی شرارت سے پہلے ہی راہ راست پر لانے کی یہی ڈیوائس دستیاب تھی۔

اس طرح کے حالات کی وجہ سے خطرے کی بو سونگھنے اور راہ ِفرار اختیار کرنے میں وہ کسی اشتہاری مجرم سے کم نہ تھے ۔ ان کو جہاں کوئی چیز نظر آتی ساتھ ہی اس کو تباہ برباد کرنے کا آئیڈیا بھی سوجھ جاتا تھا۔

ایک دن سب لوگ گرمی اور حبس سے گھبرا کر کمروں میں پناہ گزیں تھے، ان صاحب سے نچلا نہ بیٹھا گیا سو یہ چپکے سے سرک کر باہر نکل گئے، باہر اب کرتے بھی تو کیا کرتے ،ایسی تپتی دوپہروں میں تو پرندے بھی کہیں چھپ جاتے ہیں۔ انھوں نے اپنی بےچین نظریں گھما کر ادھر ادھر دیکھا تو ان کو ایک پرانا بے آباد تنور نظر آیا جس میں کسی نے کچھ ایندھن کا ذخیرہ جمع کر رکھا تھا ، انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ کہیں سے ماچس برآمد کی اور آگ لگا دی۔

کچھ دیر دھوپ میں کھڑے ہو کر جلتی ہوئی آگ کا نظارہ کرتے رہے، کسی محلے دار نے دیکھا تو دور سے ہی چیخ مار کر سب کو جمع کر لیا اور پھر سب ان بزرگ کےپیچھے پیچھے اور ہمارے بزرگ جو اس وقت بچے تھے آگے آگے بھاگتے رہے۔

ایسے بزرگوں کی ہی وجہ سے ہمیں ایسی حرکتیں کرنے کا موقع نہیں ملا، ہمیں کوئی آئیڈیا آئے اس سے پہلے ہی ہر چیز کی مناہی ہو جاتی ہے، خدا کسی کو تجربہ کار بزرگ نہ دے۔ایسے ہی بعض لوگ یوں سر راہ چلتے چلتے ہمارے ذہنی سکون کو تیلی لگا دیتے ہیں،کوئی ایسا موضوع جس کو ہم جتن کر کر بھلاتے ہیں، کبھی موسیقی سن کر کبھی کسی سے بحث مباحثہ کر کے ہم اپنا غم غلط کرتے ہیں کہ ایسے لوگ آن ٹپکتے ہیں، ہمارے کسی نامکمل پراجیکٹ کا ذکر یا ہماری نافرمان اولاد کی تربیت کا مشورہ جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے، ایسے میں اپنے جذبات پر قابو پانے کی سائنس تاحال کسی کو معلوم نہیں سو ہم اپنے دل کا غبارالگ الگ طریقوں سے نکال لیتے ہیں.

اس طرح ہمارے چڑے ہوئے بدمزاج سے روپ سے جب کوئی معصوم شخص آ کر پوچھتا ہے کہ “آج کس نے تیلی لگائی ہے؟” تو یہ سوال کئی گڑھے مردے اکھاڑ سکتا ہے لیکن آپ کو پہلی تیلی لگانے والے تک نہیں پہنچا سکتا کیوں کہ جس شخص نے پہلی تیلی لگائی تھی وہی اس تیلی کی ایجاد کا بھی ذمہ دار تھا.

کہانی اتنی بھی پرانی نہیں،7 اپریل 1827ء کی ہی تو بات ہے،انگلش مین جان واکر (Englishman John Walker) نے پہلی بار حادثاتی طور پر رگڑ کر آگ کا شعلہ جلا لیا تھا جو لکڑی کی ماچس کی تیلیوں کا پیش خیمہ بنا، مناسب پتھروں کی تلاش میں اب کون پتھروں پر چلتے ہوئے کہکشاں تک جائے۔

تیلی لگانے والے لوگوں کی بھلے ہمارے حلقہ احباب میں کوئی گنجائش نہ ہو، یہ لوگ اپنی حرکتوں کی وجہ سے سیاست دانوں کے پسندیدہ ہو جاتے ہیں ، کیوں کہ خبروں میں زندہ رہنے کے لیے لگائی بجھائی کی ضرورت رہتی ہے، یوں بھی اب کسی کی شہرت کا اندازہ گوگل پر اس کی سرچ کی تعداد سے ہوتا ہے، البتہ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ سرچ کیا کیا جارہا ہے، اداکاراؤں کے معاملے میں ان کے معاشقے اور خاوند دیکھے جاتے ہیں اور ان پر لعنت ملامت کی جاتی ہے ، دل میں سب سوچتے ہیں کہ “ان سے تو ہم ہی بہتر تھے، آخر کیا کمی ہے ہم میں۔” مردوں کو اللہ نے اپنی ذات کے بارے میں بلند تر خیالات گھڑنے کی انوکھی طاقت دی ہے، خواتین بعض معاملات میں ابھی پیچھے ہیں یہی وجہ ہے کہ فیمین ازم کی تحریک زور پکڑ رہی ہے جلد ایسے صنفی فرق مٹ جائیں گے۔

سمجھ دار لوگ ہمیشہ دھویں سے ہی آگ تک جا پہنچتے ہیں، وہی بتا سکتے ہیں کہ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے۔ میں تو صرف یہ جانتی ہوں کہ پوری دنیا کا سارا دھواں جاتا کہاں ہے، مجھے یقین ہے یہ اہم بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہو گی اور بہت سے لوگ جو ماحولیاتی آلودگی کو جھوٹ اور سازشی تھیوری قرار دیتے ہیں، ان کے شکوک سچ ثابت ہوں گے کیوں کہ دھواں ماحول کی آلودگی کا سبب بننے کے بجائے ہاروت اور ماروت کی ناک میں جا رہا ہے جو کسی کم آبادی والے برساتی ملک میں کسی آفاقی قسم کے بلند و بالا درخت سے الٹے لٹک رہے ہیں۔ ان کی اس سزا کی ذمہ دار وہ زہرہ ہے جو آپ کو آسمان میں ایک سیارے کی صورت میں دکھائی دیتی ہے، موسیٰ ؑ کے دور کی اس رقاصہ نے ان معصوم فرشتوں کو ورغلایا تھا، خدا ان سب کو معاف فرمائے لیکن زمین کی ہوا کی آلودگی کا مستقل حل البتہ مل گیا ہے۔سچ ہے زمانے میں کوئی چیز نکمی نہیں!

جہاں تک آگ لگانے کا معاملہ ہے تو اس میں خواتین کا ریکارڈ بہت سے مردوں سے بہتر ہے، کئی جلے ہوئے ، جل کر بجھے ہوئے ،نیم جلے ہوئے ، جلنے کے خواہش منداور جل کر آبلہ بنے مردوں سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔

میں چوں کہ فیمی نسٹ خیالات کی حامی ہوں اس لیے میں اس معاملے کو دوسرے نظریے سے دیکھتی ہوں ، میرا نظریہ یہ ہے کہ مردوں میں جل کر بھڑک جانے کی صلاحیت زیادہ ہے ، خواتین بھلے کوئی چنگاری نہ دکھائیں ، مردوں کو ان کے لباس کے آتشیں رنگ ہی جلا کر راکھ کر دینے کو کافی ہیں۔ایسے بھی بارہا ہوا کہ کسی مرد نے اعلیٰ انسانی اقدار کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی اور پسندیدہ خاتون کی پوسٹ پر لاتعلقی ظاہر کی تو دشمنوں اور رقیبوں نے محبوب کی پوسٹ پر ہلہ بول کر انھیں بھڑکا دیا.

چوں کہ مردوں کو سرعام گالی دینے میں کوئی باک نہیں ، عشاق البتہ شرافت کا لبادہ نہیں اتارتے اورکبھی ان بھڑکانے والے رقیبوں کو گالی نہیں دیتے کہ کہیں جوابی حملہ میں ان کا اتا پتا نہ کھل جائے ، دونوں کی بیویاں ایسی باتوں کا برا مان سکتی ہیں سو دافع ِشر کے لیے فریقین اس خاتون کو ہی کوس لیتے ہیں جس نے ایسی پوسٹ لگائی تھی۔ اس سے خواتین کی شہرت جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے اور اس کی پسندیدگی کا گراف بھی بڑھ جاتا ہے۔خواتین کی ایسی خصوصیات سے اردو شاعری کا دامن بھی بھرا ہوا ہے، وقتاً فوقتاً عشق کی جلن اور سوز و گداز کو سہتے سہتے اب آگ کا دریا ہی کہہ دیا جاتا ہے، بعض خواتین نے تو اس موضوع پر پورے پورے ناول بھی لکھ ڈالے ہیں جو کسی سے آسانی سے پڑھے بھی نہیں جاتے۔

آگ کی ایجاد میں یادوں کی لو اور خیالوں کی چنگاری نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہوگا، بعض عشاق نے محبوبوں کی یاد میں چقماق سے جو دیے جلائے تو اس کو طویل مدت تک جلائے رکھا، حتی کہ کسی علاقے کے سارے توشہ خانے بعد ازاں اسی دیے سے روشن ہوئے اور وہاں دھرے کئی خزانے دکھائی دیے۔

امید کا دیا بھی روشن رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے لیے کبھی بھی کافی ایندھن نہیں رہا اس لیے وہ عموماً روشن نہیں رہتا، اندھیری راتوں میں تو ضرور بجھ جاتا ہے، بعض صحافی اس کی وجہ مرفی لاء کو قرار دیتے ہیں جس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کہ کہیں عدلیہ نہ چونک جائے جب کہ اس کا عدالتوں سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ۔

ہمارے ہاں عدالتوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ بھی اس طالب علم کی طرح ہیں جس نے کہا تھا کہ “میں سائنس پڑھتا ہوں “، کسی نے پوچھا کہ “پھر حرکت کا تیسرا قانون تو بتاؤ”،اس نے کہ:”بھائی میں سائنس کا طالب علم ہوں ، قانون کا نہیں۔”
آگ لگانے میں پٹرول بم کو بھی اہم مقام حاصل ہے، یہ بم ایسا ہے جس سے تیسری دنیا کے ملکوں میں غربت کا خاتمہ کیا جاتا ہے لیکن غربت کی لاش کی سڑاند اور تعفن سے حفاظت کو کوئی انتظام تاحال نہیں کیا جا سکا یہ ایسا ہی ہے جیسے پانی ابال کر جراثیم مارے جاتے ہیں لیکن ان جراثیم کی لاش ٹھکانے لگانے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

پٹرول بم میں حکومتوں کی پالیسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تن دہی کا بڑا ہاتھ ہے، وہ بڑے سے ہاتھ سے لہرا کر پٹرول سے بھری ہوئی بوتل پھینکتے ہیں جس سے ذرائع آمد و رفت میں تیزی آتی ہے اور ملوں مشینوں کے پہیے خوب تیزی سے گھومتے ہیں پھر مزدور اور دہقان اس ترقی سے دن رات جھومتے ہیں۔اس طرح کی خبروں سے بعض نام نہاد لبرلز کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے، ان سے یہ ترقی دیکھی نہیں جاتی اور وہ فوراً سوشل میڈیا پر شور مچادیتے ہیں، گو کہ اس طرح کی گیدڑ بھپکیوں سے حکام کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی لیکن بعض خدائی فوج دار پھر بھی ان کو سیدھا کر لیتے ہیں ، خدائی فوج داروں کی خوبی یہ ہے کہ وہ خود بھلے کتنے ہی ٹیڑھے کیوں نہ ہوں کسی اور کا ٹیڑھا پن برداشت نہیں کر سکتے۔

گناہگاروں کو جہنم سے ڈرانے کے لیے آگ کو دنیا میں بھیجا گیا ہے، اگر کوئی نیکوکار بھی ڈر جائے تو اس کو خواب میں بھنے ہوئے کھانے کھلا دیے جاتے ہیں جس سے اس کی روح مطمئن اور دل پرسکون ہو جاتا ہے۔ غور و فکر کرنے والوں نے نتیجہ نکالا ہے کہ آگ بھی زندہ ہوتی ہے کیوں کہ اس کو بھی بھوک لگتی ہے اور وہ سوکھی ہوئی لکڑیاں جھٹ پٹ کھا جاتی ہے ، آگ اپنی طبعی خاصیتوں کے اثر سے حاسد اور منتقم مزاج ہوتی ہے۔

اس کے ثبوت میں کئی واقعات ہیں مثلاً کسی کے گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگ گئی تھی اس انتقامی کارروائی کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے چراغوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے اور ان کو کبھی بھی لالٹین کے برابر مقام حاصل نہیں ہو سکا۔ ایسا واقعہ ہر ملک میں مل سکتا ہے بس غور کرنے کی دیر ہے، آسٹریلیا میں ایک لڑکی کا محبوب آگ بجھانے والے محکمے میں کام کرتا تھا، اس لڑکی نے اپنے محبوب کو آن ڈیوٹی کال کرنے کے لیے جنگل میں ذرا سی آگ لگائی جو آگ کے جذبہ حسد کی دجہ سے خوب پھیلی اور کئی دن تک اس پر قابو نہ پایا جا سکا، کئی ایکڑ پر مشتمل جنگلی حیات سے آباد علاقہ جل کر راکھ ہو گیا، محبوب صاحب کو سر کھجانے کی فرصت نہ ملی اور لڑکی کی یہ چونچالی دنیا بھر میں مشہور ہو گئی۔

اسی طرح ہلاکو خان اور چنگیز خان نے تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے آگ کا استعمال کیا، انھوں نے بصرہ، کوفہ اور بغداد کے علادہ اور بھی کئی شہروں کو لوٹا، لوگوں کو قتل کیا اور شہروں کو آگ لگا دی جو مہینوں تک سلگتی رہی ، اس میں سے دھواں نکلتا رہا اور اس کی راکھ آج بھی تاریخ کی کتابوں پر گرتی رہتی ہے۔ مقام ِحیرت ہے کہ اس دور میں ہم اور آپ زندہ ہیں ورنہ انسانیت نے جیسے زمانے دیکھے ہیں کوئی جانور دیکھ لیتا تو کب کا ناپید ہو گیا ہوتا۔

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنفہ راولپنڈی کے تاریخی گورڈن کالج کے شعبہ اُردو سے وابستہ ہیں۔ اردو ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، ریڈیو، ٹی وی پر کمپئرنگ کرتی ہیں۔ نثر لکھتی ہیں جو کبھی سنجیدہ ہوتی ہے اور کبھی اصلی۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp