دنیا بھر کے منصفین قانونی پیچیدگیوں کو سلجھانے کے لیے یا اپنے فیصلوں کو واضح کرنے کی خاطر مختلف حوالے دینے میں معروف ہیں۔ قانونی آراء اکثر بیانیہ انداز میں پیش کی جاتی ہیں اور اپنی فطرت میں کہانی جیسا انداز لیے ہوتی ہیں۔ اس لیے جب کچھ حقائق قارئین کو واضح طور پر سمجھانے ہوں تو فکشن کا حوالہ، جیسا کہ شیکسپئیر کا کام جو انسانی تجربے سے بہت گہری جڑت رکھتا ہے، ایک طاقتور آلہ ثابت ہوتا ہے۔ ادب کسی دعوے کو قوت بخشنے کے لیے اہم وسیلہ ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ہاں تقریر یا مباحثے میں اہم موڑ پر مضبوط دلیل کے طور پر شعر استعمال ہوتا ہے۔
معروف امریکی قانون دان رچرڈ پوسنر کے مطابق ’’ایک ہنر مند جج، ہنر مند قصہ گو کی طرح ہوتا ہے، جو اپنے قاری کی دلچسپی برقرار رکھتے ہوئے، اسے اپنی رائے کے اختتام تک لے جاتا ہے۔ ایک عام قانونی فیصلے کو ناول کے پلاٹ کی طرح عقدہ کشا ہونا چاہیے۔ کچھ ماہرین قانون کہتے ہیں کہ ادب اور ریاست میں تناؤ کوئی نئی بات نہیں، خاص طور پر ادب کی اس قوت کی روشنی میں کہ جو ریاست کو بہکانے، قائل کرنے اورمتاثر کرنے والی ہے۔ ‘‘
بعض جج کسی لفظ یا جملے کی تفہیم کے لیے بھی لغت کا سہارا لینے کی بجائے ادبی حوالہ دینا مناسب سمجھتے ہیں، مثال کے طور پر ایک معروف مقدمے Coy v Iowaمیں جسٹس سکالیا نے اپنے فیصلے میں لفظConfront کا درست مفہوم بیان کرنے کے لیے شیکسپئیر کے ڈرامے رچرڈ دوم سے ایک اقتباس نقل کیا۔ سکالیا نے لفظ کی درست تفہیم کے لیے اسے اس کی لاطینی جڑوں سے الگ کیا اور پھر شیکسپئیر کے الفاظ نقل کرتے ہوئے کہا ’’ شیکسپئیر اس وقت اس لفظ کا بنیادی معنی بیان کر رہا تھا جب اس نے رچرڈ دوم سے یہ کہلوایا: پھرانہیں ہماری موجودگی میں پیش کرو۔ ۔ ۔ آمنے سامنے، اور تیوری سے تیوری ملاؤ، ہم الزام لگانے والے کو اور ملزم کو آزادی سے بات کرتے ہوئے سنیں گے۔ ‘‘
اس مثال میں شیکسپئیر کا حوالہ لغت یا تاریخ سے دیے گئے کسی حوالے جیسا ہی ہے، لیکن لغت اور شیکسپئیر میں ایک بڑا فرق ہے: شیکسپئر کے ڈراموں سے حوالے تلاش کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ جج اچھا خاصا صاحب علم نہ ہو۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں موجود تمام اہم ججوں نے شیکسپئیر کے ڈرامے پڑھ رکھے ہوں گے، لیکن شیکسپئیر کے ہاں پائی جانے والی زرخیزی قاری کی باریک بینی اور توجہ کی متقاضی ہے، اس کے بغیر اس کے افکار کا عدالتی و قانونی مقدمات میں حوالہ دینا مشکل امر ہے۔ سو اس کام کا حوصلہ کچھ ججوں کو ہی ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے صرف ادب کا مطالعہ کافی نہیں بلکہ ایک جج کا ادبی اقتباسات اور حوالوں کے استعمال پر عبور رکھنا بھی شرط ہے۔
عدالتی فیصلوں میں شامل ادبی حوالوں میں شیکسپئیر سب ادیبوں سے آگے کیوں ہے؟ اس کی کچھ اہم وجوہات ہیں: پہلی یہ کہ وکلاء، بشمول ان کے جو بعد میں جج بنتے ہیں، شیکسپئیر سے خاص لگاؤ رکھتے ہے۔ رابرٹ پیٹرسن کے بقول زبان کی خوبصورتی، چمک اور انفراد یت، مختصر عدالتی فیصلوں اور آراء میں شیکسپئیر کی مقبولیت کا سبب ہے۔ اس کے علاوہ شیکسپئیر کی عدالتی معاملات میں ایک خاص طرح کی دلچسپی ہے۔ علاوہ ازیں شیکسپئیر کے گرد پھیلی ایک پراسراریت اس کے ڈراموں کو وکلاء اور عام قارئین کے لیے زیادہ پرکشش بناتی ہے، اور سب سے اہم بات کہ شیکسپئیر کے پاس سب کی دلچسپی کا سامان ہے۔ ذیل میں کچھ اہم عدالتی مقدمات اور ان کے حوالے دیے جا رہے ہیں جہاں شیکسپئیر کی تحریروں سے مدد لی گئی۔
دو ماہر دوا سازوں بلینکو پریز اور چائو گومز کا نئی فارمیسی کے قیام کے حق میں ایک مقدمہ عدالت کے سامنے رکھا گیا، یہ مقدمہ یورپی معاہدے اور سپین کی حکومت کے ایک حکم نامے کی تشریحات کے بارے میں تھا۔ اس حکم نامے کے تحت اس علاقے میں فارمیسیوں کی تعداد محدود رکھنے کی غرض سے دونوں دواسازوں کو نئی فارمیسی کھولنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ ایڈووکیٹ جنرل پوائیرس ماڈورو نے اپنی دلیل میں کہا:یہ تشویش کہ دواساز پیسوں کے لالچ میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال دیں گے، نئی نہیں ہے۔ یہ کم از کم تب سے تشویش کی بات ہے جب سے شیکسپئیر کے رومیو نے ایک دوافروش کے بدنصیب گمنام بچے کو زہر بیچنے پر قائل کیا، ان سطروں کے ساتھ:
’’ تمہارے گالوں میں قحط ہے،
تمہاری آنکھوں میں ضرورت اور جبر بھوک سے مر رہے ہیں،
حقارت اور بھیک پشت پر لٹک رہے ہیں،
نہ دنیا تمہاری دوست ہے نہ دنیا کا قانون؛
دنیا تمہیں امیر بنانے کے لیے کسی قانون کی متحمل نہیں:
سو غریب مت رہو، بلکہ اسے توڑ دو اور یہ لے ‘‘
لندن میں دو درخواست گزاروں اوچاکوسکی لارنز اور جولائی وی فرانس نے (ایک فرانسیسی اخبار کے مصنف، پبلشر اور صحافی) نے یورپی کنونشن کے آرٹیکل دس اور چھ/ ایک کے تحت حاصل اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی کی شکایت کی۔ جج لوکس لائوسیڈس نے یورپی کنونشن کے قانون پر زور دیتے ہوئے فٹ نوٹ میں لکھا: شیکسپئیر کے یہ الفاظ میرے ذہن میں گونج رہے ہیں’’می لارڈ، مردوں اور عورتوں میں اچھا نام ان کی ارواح کا جوہر ہوتا ہے، جس نے میرا بٹوا چرایا اس نے کچرا چرایا لیکن جس نے مجھ سے میرا اچھا نام چھینا اس نے مجھے حقیقت میں غریب کر دیا۔ ‘‘
1979میں براؤن فیلسن میں جسٹس بلیک من نے Timon of Athens کا حوالہ دیا۔ انہوں نے یہ حوالہ اس تجویز کی تفہیم کی غرض سے دیا کہ بینک کا دیوالیہ پن ایک قرض دار کو اس کی رقم کی حیثیت سے محروم کر دیتا ہے اور اس طرح لوٹانے کی قابلیت کمزور پڑ جاتی ہے۔ انہوں نے شیکسپئیرکے یہ جملے کوٹ کیے ’’ جب ہر بال پَر میں پھنس جائے تو لارڈ ٹمن ایک ننگے بگلے کی طرح ہو جائے گا، جو ابھی ققنس کی طرح چمک رہا ہے۔ ‘‘