کیا ہم کوئی غلام ہیں؟

بدھ 2 اکتوبر 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دو ہزار چودہ کو گزرے دس برس بیت گئے مگر ہم آج بھی  دو ہزار چودہ کے مقام پر کھڑے ہیں۔ وہی دھرنے، وہی لانگ مارچ، وہی جلاؤ گھیراؤ کی سیاست، وہی نفرت کی یلغار، وہی سرکاری املاک پر چڑھائی اور افسران کو دھمکیاں۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ عمران خان آج بھی نہ اس ملک میں معاشی استحکام ہونے دے رہے ہیں نہ سیاسی طور پر مملکت میں سکون آنے دے رہے ہیں۔ ان کے اطوار نہ اپوزیشن میں بدلے نہ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے اپنی روش بدلی۔ دھرنوں میں لاٹھی چارج ، پولیس والوں کے پھٹے سر، سرکاری املاک پر لگی آگ، بند رستے، کنٹینر اور پولیس کی مظاہرین سے جھڑپیں، اس کے سوا پاکستانیوں نے ان دس برسوں میں کیا دیکھا ہے؟ بسا اوقات تو لگتا ہے ہمارا مقدر ہی یہی ہے۔  دھرنے ، احتجاج ، جلاؤ گھیراؤ ہمارا نصیب ہیں۔ پاکستان کے عوام  نہ اس سیاسی روش کو بدلنے کا اختیار رکھتے ہیں نہ کوئی ان کی فریاد سنتا ہے۔ ہم اس بدقسمت نسل میں سے ہیں جن کے بارے میں آنے والی نسلیں کہیں گی کہ ہمارے بزرگ وہ تھے جنہوں نے اپنے ہی نشیمن کو آگ لگا دی، اپنے ہر گھر کو جلا دیا۔

آپ گزشتہ دس برس کی پاکستانی تاریخ کے کسی ورق کو پلٹ کر دیکھ لیں ہمیں سکون نہیں لینے دیا گیا۔ موقع چاہے عید کا ہو  یا محرم کے محترم دن ہوں، ارشد ندیم کی کامیابی ہو یا کرکٹ میچ کی کوئی فتح ہو، کسی عالمی فورم پر پاکستان کی حرمت کا دن ہو یا پھر کسی پاکستانی وزیر اعظم کی توقیر کا کوئی دن۔ عمران خان نے کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ ہر موقع پر ہماری خوشیوں کو آگ لگائی، ہمارے سکون کو غارت کیا۔ معیشت کا بینڈ بجایا، سیاست اور ریاست کی توہین کی۔

المیہ یہ نہیں کہ انہوں نے ہر موقع پر پاکستان کی تضحیک کی بلکہ المیہ یہ ہے کہ ان کے لہجوں میں اب شرم کے بجائے شدت آتی جا رہی ہے۔ وہ اپنے کیے پر پشیمان نہیں بلکہ خوشیاں منا رہے ہیں۔ آئے روز کوئی ایسا بیان دیتا ہے کہ دل دہل جاتا ہے۔ کوئی انصافی متوالا پاسپورٹ کو جلا دیتا ہے، کوئی قومی پرچم کو پیروں تلے روند دیتا ہے، کوئی عمران خان کے سوا پاکستان کے وجود سے ہی منکر ہو جاتا ہے۔ کوئی سرکاری اداروں کی توہین کا جشن مناتا ہے۔

ہم سمجھتے تھے کہ نو مئی سے زیادہ کیا ہو گا؟ جب سرکاری املاک کو آگ لگا دی گئی، جب کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ کر دیا گیا، جب جی ایچ کیو پر چڑھائی کر دی گئی۔ جب شہدا کی یادگاروں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ ہم سمجھتے تھے کہ اس بعد یہ ہزیمت کا طوفان تھم جائے گا، اس کے بعد ان بے عقلوں کو کچھ عقل آئے گی۔ اس کے بعد نفرت کی اس یلغار کو کچھ قرار آئے گا لیکن نہیں عمران خان سب کچھ کو آگ لگا کر بھی اپنی روش سے باز نہیں آئے۔

جو لوگ کہتے ہیں عمران خان کو ایک دفعہ وزیر پھر وزیر اعظم بننے دو سب مسئلوں کا حل نکل آئے گا۔ وہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ عمران خان ایک دفعہ اس ملک کے وزیر اعظم بنے تھے اور کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا تھا۔  وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اپنے اطوار نہیں بدلے۔ دھڑلے سے جھوٹ بولے۔ کفایت شعاری کے نام پر ہیلی کاپٹر میں گھر جایا کرتے تھے۔ سیاستدانوں کا عقوبت خانوں میں دھکیلنا اس وقت ان کا مشغلہ تھا۔ اسمبلی میں پہلی تقریر سے آخری تقریر تک ان کے لہجے سے باقی سب کے لیے نفرت جھلکتی تھی۔  اس وقت بھی وہ انتشار پر مصر تھے، آج جیل میں بھی ان کا مقصد یہی ہے۔ دوسری دفعہ وزیر اعظم بن کر بھی وہ نہیں بدلیں گے بلکہ ملک کو تباہی کے ایسے راستے کی طرف لے جائیں گے جس سے واپسی ناممکن ہو گی۔

عمراں خان کی انتشاری سیاست کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جب بھی ملک میں کوئی اچھا کام ہونے لگے عمران خان اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ میدان میں اتر آتے ہیں اور ہر خوشی میں کھنڈت ڈال دیتے ہیں۔ ہر ترقی کو تنزلی کی جانب لے جاتے ہیں۔ ہر بات کو نفرت، جلاؤ گھیراؤ پر منتج کرتے ہیں۔

دو ہزار چودہ کے دھرنے کے وقت چین کے صدر نے پاکستان آنا تھا لیکن ڈی چوک میں جو دھماچوکڑی مچی تھی، جو شلواریں سپریم کورٹ کی دیواروں پر سوکھ رہی تھیں، جو غلاظت شہر اسلام آباد میں بکھری تھی اور جو لاقانونیت پاکستان کے دارالحکومت میں ہو رہی تھی اس کو نظر میں رکھتے ہوئے چین کے صدر نے پاکستان کا دورہ منسوخ کردیا، یوں عمران خان کے من کی مراد پوری ہوئی۔  ملک کی جگ ہنسائی بھی ہوئی، خارجہ کی سطح پر ہمارا مذاق بھی بنا اور بین الاقوامی طور پر ہماری بھد بھی اڑائی گئی۔

اس ماہ پاکستان میں شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن کا سربراہی اجلاس متوقع ہے۔ اس کی میزبانی پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ اطلاعات ہیں کہ چین کے فرماں روا بھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے آئیں گے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ممالک کے سربراہ پاکستان کو میزبانی کا شرف بخشیں گے۔  اس بات پر سارے پاکستان کا سر فخر سے بلند ہونا چاہیے۔ سب کو مل کر قومی یکجہتی کے جذبے سے سرشار ہو کر معزز مہمانوں کا استقبال کرنا چاہیے۔ ان کی عزت و تکریم کرنی چاہیے کیونکہ یہ پاکستان کی عزت کا معاملہ ہے۔

عمران خان کے سیاسی ماضی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس دفعہ بھی چین کے صدر کے دورے کو برباد  کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کو پہلے ہی حکم دے دیا ہے کہ اسلام آباد کی طرف چڑھائی کریں، ہر چیز کو تہس نہس کریں۔

سوچنے کی بات صرف یہ ہے کہ جب بھی چین کے صدر کا دورہ ہوتا ہے، عمران خان کو جلال کیوں آ جا تا ہے۔ اس سے تو اس تھیوری پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے کہ عمران خان دراصل ایک امریکی سازش ہے جو سی پیک کے خلاف رچائی گئی ہے۔ اس سے سی پیک کو جو نقصان پہنچا سو پہنچا مگر خان نے اس سازش میں ملک تباہ کر دیا۔

 یہ وہ لوگ جو امریکا سے آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ورلڈ کپ جیت لیا اور جب ان کی حکومت ختم ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم کوئی غلام ہیں؟  لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان امریکا کے غلام نہیں بلکہ پارٹنر ہیں جن کا مقصد چین اور پاکستان کے تعلقات کو برباد کرنا اور سی پیک کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا ہے۔ اب تک وہ اپنے پارٹنر کی خوشنودی کے لیے یہ کام بہت اچھے طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp