بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ نے کہا ہے کہ ’پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی وجہ سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آرہا، خان صاحب کی تقاریر ذاتی مفاد پر مشتمل ہوتی ہیں اور اس میں معیشت کی بہتری، ملک میں آئین کی بالادستی، انسانی حقوق پر عملدرآمد، فیڈریشن کی تمام اکائیوں میں ہم آہنگی یا تعلیم کے فروغ کا کوئی ذکر نہیں ہوتا‘۔
’عمران خان احتساب کی فراہمی میں ناکام رہے‘
وی نیوز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کی جماعت کا نام پاکستان تحریک انصاف تھا نہ کہ پاکستان تحریک احتساب۔ خان صاحب نے اپنی حکومت کے ابتدائی ادوار میں احتساب کا ڈنڈا اٹھایا مگر احتساب فراہم کرنے میں بھی ناکام رہے۔ عمران خان کو یہ بھی نہیں پتا چلا کہ انہوں میں اپنے دورِ حکومت کے 3 سالوں میں کیا کیا‘۔
’سیاسی تصادم میں کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا‘
ایک سوال کے جواب میں ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ملک میں جو سیاسی تصادم جاری ہے اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اگر جلد انتخابات ہو بھی جاتے ہیں تو عمران خان کے پاس ملک چلانے کا کوئی پلان موجود نہیں ہے‘۔ ثناء بلوچ کے مطابق ’ملک کو درپیش تمام بحرانوں کے ذمہ دار عمران خان ہیں‘۔
’قانون کی حکمرانی کے بغیر خوشحالی نہیں آسکتی‘
ایک سوال کے جواب میں ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ ’اگست 2018 میں عمران خان کی حکومت کے ساتھ ہماری جماعت کا ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت ہم نے وزارتِ عظمیٰ اور بعد میں صدارت کے لیے صوبائی اور قومی اسمبلی سمیت سینیٹ میں ان کی حمایت کی۔ عمران خان سے ہمارے اس معاہدے کا مقصد یہ تھا کہ بلوچستان میں چاہے کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوجائے لیکن اس کا اس وقت تک فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک یہاں امن کی فضا قائم نہیں ہوگی’۔ انہوں نے کہا کہ جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اس وقت تک بلوچستان میں خوشحالی نہیں آسکتی‘۔
’صوبے میں ایک گھٹن کا ماحول ہے‘
ثناء بلوچ کے مطابق ’ہمارا ویژن یہ تھا کہ عمران خان کو یہ بات سمجھائیں کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی فراہمی کا بحران ہے، معاشرے میں ایک عدم استحکام ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں سیاسی مسائل کا بھی ایک انبار ہے۔ لوگوں کو اپنے وسائل پر اختیار نہیں۔ یہاں شخصی آزادی نہیں، صوبے میں ایک گھٹن کا ماحول ہے۔ بلوچستان کا یہ مسئلہ ابھی کا نہیں بلکہ 50 سے 60 سال سے چل رہا ہے لہٰذا ان مسائل کے خاتمے کے لیے ہم نے پی ٹی آئی حکومت سے ہاتھ ملایا تھا‘۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں لگا تھا کہ پی ٹی آئی ایک نئے ویژن کے ساتھ آئی ہے، یہ جماعت پاکستان اور بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے ہمارے ساتھ مل کر کام کرے گی، تاہم بلوچستان کے مسائل سے متعلق عمران خان سے ہماری جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں ان میں ہمیں سرد مہری کا احساس ہوا‘۔
ثناء بلوچ کے مطابق ’عمران خان سے کیے گئے معاہدے میں صرف لاپتا افراد کا معاملہ کسی حد تک حل ہوا جس میں 500 سے 600 لاپتا افراد واپس گھروں کو آئے اس کے علاوہ کسی بھی نکتے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا‘۔
رکن صوبائی اسمبلی نے وضاحت کی کہ ’ہم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی ان کے اتحاد سے نکل چکے تھے‘۔
’پی ڈی ایم کی حکومت بہت کمزور ہے‘
ثناء بلوچ سمجھتے ہیں کہ ’عمران خان حکومت کے مقابلے میں پی ڈی ایم کی حکومت بہت کمزور ہے جس کی 2 بڑی وجوہات ہیں، ان میں ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے جس کے باعث بلوچستان ایک بار پھر منظرِعام سے غائب ہوگیا ہے‘۔
’صرف نیک نیتی ہی کافی نہیں‘
ثناء بلوچ کہتے ہیں کہ ’سردار اختر مینگل اور شہباز شریف کے پہلی ملاقات میں بلوچستان میں لاپتا افراد سے متعلق بات ہوئی، جس میں شہباز شریف نے معاملات کو حل کرنے سے متعلق بہت نیک نیتی کا اظہار کیا لیکن تمام مسائل کے حل کے لیے صرف نیک نیتی ہی کافی نہیں‘۔
’ریکوڈک کا مسئلہ‘
’ریکوڈک‘ سے متعلق سوال کے جواب میں ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے غلط حکمتِ عملی کے باعث ہم 2019 میں ریکوڈک کا کیس عالمی عدالت میں ہار گئے، جس میں پاکستان پر 9 سے 10 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا۔ ہم نے اس وقت بھی وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ یہ معاملہ بلوچستان کے سپرد کردیں لیکن نہیں کیا گیا۔ اب ریکوڈک کا جو معاہدہ ہوا ہے اس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ عدالت سے باہر معاملے کو حل کیا جائے کیوں کہ 9 ارب ڈالر پاکستان کے لیے بہت بڑی رقم ہے اس وقت ہم 2 ارب ڈالر کے لیے بھی آئی ایم ایف کے تلوے چاٹ رہے ہیں‘۔
’نئے معاہدے کے تحت 50 فیصد بیرک گولڈ لے جائے گا‘
ثناء بلوچ کے مطابق ’اس معاملے سے متعلق بات چیت شروع ہوئی اور ’انتافیگوشتہ‘ نے کہا کہ آپ 900 ملین ڈالر مجھے دے دیں تو میں یہ معاہدہ چھوڑ دوں گا۔ تاہم ’بیرک گولڈ‘ نے اس وقت کہا کہ ہم یہاں ایک نئے معاہدے کے تحت کام شروع کریں گے‘۔
ثناء بلوچ کہتے ہیں کہ ’نئے معاہدے کے تحت 50 فیصد بیرک گولڈ لے جائے گا جب کہ 50 فیصد بلوچستان کا ہوگا اس 50 فیصد میں انتافیگوشتہ کے 900 ملین ڈالر دینے تھے تو معاہدے میں طے پایا کہ یہ رقم بلوچستان نہیں نہیں سکے گا تو معاہدے میں اسٹیٹ اون انٹرپرائزز (ایس او ایز) شامل کی گئی جس میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ، او جی ڈی سی ایل اور حکومتِ پاکستان ہولڈنگز شامل تھیں۔ کہا گیا کہ آپ آئیں اور ہم آپ کو 25 فیصد حصہ دیں گے اور اس سے انتافیگوشتہ کو فروغ کیا جائے گا۔ معاہدے میں 25 فیصد بلوچستان کو ملنا تھا جس میں 15 فیصد ترقیاتی اقدامات کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کے بعد ہم بلوچستان اسمبلی میں قرارداد لائے جس کی ایوان نے مخالفت کی اور بدقسمتی سے ایک ووٹ سے میری قرارداد منظور نہیں ہوسکی‘۔
’ریکوڈک کا حال بھی سیندک پروجیکٹ کی طرح ہی ہوجائے گا‘
ثناء بلوچ کے مطابق ’اس معاملے معاملے پر ہم سپریم کورٹ گئے اور ہمیں کہا گیا کہ ریکوڈک کے معاملے سے متعلق توثیق کی جائے مگر صوبے کی سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی کے باعث معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا اگر ریکوڈک سے آنے والا پیسہ اسی صورت میں وہ سود مند ہوگا جب یہ تعلیم، صحت اور ترقیاتی منصوبوں پر لگائے جائے ورنہ اس کا حال بھی سیندک پروجیکٹ کی طرح ہی ہوجائے گا‘۔
’لاپتا افراد سے متعلق جامع رپورٹ جمع کروائی‘
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے لاپتا افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی سے متعلق سوال پر ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ ’یہ کمیٹی اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اس وقت بنائی گئی تھی جب اسلام آباد میں بلوچ طلبہ سے متعلق مسئلہ پیدا ہوا۔ اس پر عدالت نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ایک کمیشن بنانا چاہیے جس کامقصد بلوچ طلبہ کو درپیش مسائل کی نشاندہی اور اس کو حل کرنے کے طریقہ کار وضع کرنا تھا۔ سردار اختر مینگل نے معاملے پر بھرپور اور جامع رپورٹ بنا کر اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی تھی، اب اس رپورٹ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کب سامنے لاتی ہے یہ ان کا دائرہ کار ہے‘۔
’لوگوں کا لاپتا ہونا ایک انسانی بحران ہے‘
ثناء بلوچ کے مطابق ’انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں لاپتا افراد کی تعداد بتائی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بہت سے ایسے کیسز ہیں جو رپورٹ بھی نہیں ہوئے یا ہوسکتا ہے کبھی ہم نے زیادہ بتایا ہو، لیکن بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ شد و مد سے یہاں جاری ہے۔ بلوچستان میں لوگوں کا لاپتا ہونا ایک انسانی، سیاسی اور قانونی بحران ہے جسے حل ہونا چاہیے۔ اس صورتحال میں ہمیں تعداد کو نہیں دیکھنا بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اگر ایک بھی بچہ لاپتا ہوتا ہے تو ریاست، سیاسی جماعتوں اور ایوان کی ذمہ داری ہے کہ اس بچے کو گھر واپس پہنچائے اور معاملے میں جو بھی قصوروار ہے اسے سزا ملنی چاہیے۔