وی ایکسکلوسیو: جماعت اسلامی کے دور میں کراچی کو کمرشلائز کیا گیا جس سے نظام تباہ ہوا، شہلا رضا

ہفتہ 8 اپریل 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پیپلز پارٹی سندھ کی رہنما اور سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا اپنے دور طالب علمی کے دوران اسٹوڈنٹس پولیٹکس میں خاصی سرگرم رہی ہیں۔ وہ اپنی ان سیاسی سرگرمیوں کے سبب اسیری سے بھی دوچار ہوئیں اور دوران اسیری ہی انہوں نے امتحان دیا اور اس میں کامیاب ہوئیں۔

قید و بند کی ان ایام کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ میرا ماسٹر فیزیولوجی میں تھا اس کو آپ پرائیویٹ نہیں کرسکتے، پریکٹیکل نہ ہونے کے باعث سیکنڈ ڈویژن آئی۔ میرے پاس پرچہ امتحان ہونے کے دو دن بعد آتا تھا۔ اللہ کے فضل سے پاس ہوگئی۔ میں تو صرف اسٹوڈنٹ پولیٹکس کررہی تھی اور عام لڑکی کی طرح میری بھی شادی ہو جاتی یا میں بھی استانی بن جاتی لیکن میں سیاستدان بن گئی۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو میں شہلا رضا زیدی کا  کہنا تھا کہ ’مجھے فخر ہے کہ میں آج بھی آصف علی زرداری کی بیٹی کی حیثیت رکھتی ہوں۔ سب کو میری صلاحیتوں کا پتا تھا۔ مجھے دیکھ کر پارٹی کے لوگ  شاباش دیا کرتے تھے۔

عدالتی پیشی پر آصف زرداری سے ملاقات

سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی کے مطابق دوران اسیری ایک پیشی پر میری ملاقات آصف علی زرداری سے ہوئی، یہ وہ دن جب میں نے ماسٹر کے امتحانات کے دوران جیل میں درخواست لگا رکھی تھی کہ مجھے پڑھائی کے لیے الگ کمرہ دیا جائے۔ جب میں نے اس حوالے سے آصف علی زرداری سے بات کی تو انہوں نے کہا پریشان نہ ہو مل جائے گا کمرہ، تم تو بڑے کمرے میں ہو میں ایک کھولی میں ہوں۔ پھر مجھے بھی کمرے کے نام پر ایک کھولی مل گئی‘۔

’ جیل کے گیٹ سے دوبارہ گرفتاری‘

شہلا رضا کے مطابق ’ 1990ء میں میرا بیشتر وقت جیل میں گزرا ۔ ہمارے ملک کی سیاست ایسی رہی کہ سیاست دانوں کا کافی عرصہ جیل میں گزرا اور بدقسمتی سے میں بھی وہ سیاست دان ہوں جس کا وہ وقت جب گھر والے لڑکی کے شادی بیاہ کے بارے  میں سوچتے ہیں، اس وقت وہ جیل چلی گئی۔ یہ آج کا دور نہیں تھا بلکہ 1990ء کا دور تھا۔ آپ سوچیں کہ اتنے سال پہلے کوئی لڑکی اگر جیل چلی جائے تو ہماری سوسائٹی کتنا آگے آئی اور کتنا پیچھے گئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں روئی نہیں تھی، رات کو تقریباً پونے تین بجے سے ساڑھے چار بجے میرے گھر پر ریڈ ہوئی تھی۔ میرے والد دوسرے کمرے میں تھے، میرے ساتھ میرے کزن اور ایک بھائی کو اٹھا لیا تھا، سردی کا موسم تھا میں واقعی نہیں روئی، 27 دن سی آئی اے سینٹر میں رہی۔ دو دفعہ مجھے حراست میں لیا گیا پھر مجھے جیل بھیجا گیا، جیل سے جب میں نکلی تو جیل کے گیٹ سے مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ یہ وہ اذیتیں ہیں جو میرے والدین نے سہیں۔ ان میں ہمت اس لیے پیدا ہوئی کہ انہوں نے مجھے کبھی بے ہمت نہیں دیکھا، مجھے جب دوبارہ گرفتار کیا گیا تو میری مرحومہ والدہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔ ہمارے حوصلے اس لیے بلند تھے کہ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ ہمیں معلوم تھا جتنا بڑا مقدمہ ڈال دیں جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے جھوٹ ایک دن گرے گا۔

’سیاستدان اور سیاست کے لیے منتخب کیے گئے فرد میں فرق‘

شہلا رضا نے تحریک انصاف کے رہنما کا نام لیے بغیر کہا کہ ’آج جو اپنے آپ کو لیڈر کہتا ہے اس کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس پر کوئی سیاسی مقدمہ نہیں ہے، کسی سیاست دان نے اس کو حراست میں لینے کی کوشش نہیں کی۔ اس کو عدالت نے بلایا ہے ایک طرف وہ کہتا ہے مجھے عدالتوں پر اعتماد ہے دوسری طرف وہ عدالتوں میں پیش نہیں ہوتا، گھر کے باتھ روم میں چھپ جاتا ہے، اس کے بعد ایسی زبان میں خطاب کرتا ہے جس کے الفاظ ناقابل سماعت ہوں، اس کے جو بھاشن ہیں کہ ہمارے اوپر جب بات آئے گی ہم ا حتساب اپنے گھر سے شروع کریں گے، لیکن جب اس کی حکومت تھی تو پارٹی فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہیں آیا اور اس کوآگے بڑھاتا رہا اور اب یہ توشہ خانہ ہے تو اس میں بھی عدالت نہیں جا رہا، تو یہ فرق ہوتا ہے سیاست دانوں اور سلیکٹڈ پرسینالٹی فار پالیٹیکس میں‘۔

’کراچی کے لیے اربوں ڈالر فنڈز ‘

شہلا رضا کے مطابق ’پی پی نے جتنا کراچی میں ڈلیور کیا اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ ہم نے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی مد میں 803 ارب ڈالر آج سے تقریباً 4 سال پہلے کراچی میں مختلف منصوبوں کے لیے حاصل کیے تھے۔ ان فنڈ سے 3 بڑے منصوبے چل رہے ہیں جس میں پیپلز لیبر ہوڈ اور واٹر اینڈ سیوریج منصوبہ بھی شامل ہے‘۔

’وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی کے لیے کپتان کا کردار ادا کیا‘

شہلا رضا کہتی ہیں ’ہم نے ہر حکومتوں کی طرح صرف روڈ نہیں بنانی سیوریج کا نظام بھی بہتر کرنا ہے۔ ہم نے سات سے زائد فلائی اوور بنائے، روڈ انفراسٹرکچر پر کام ہو رہا ہے، پارکس پہلے سے بہت بہتر کیے ہیں۔ کراچی کو جب ہم نے سنبھالا تو یہ دنیا میں خطرناک شہروں میں چھٹے نمبر پر تھا۔ یہاں فاٹا سے بڑا آپریشن ہوا لا اینڈ آرڈر کو بہتر کرنے کے لیے سی ایم سندھ نے کپتان کا کردار ادا کیا۔ وفاقی حکومت نے تعاون کا اظہار تو کیا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، رینجرز نے مل کر پولیس کے ساتھ آپریشن کیا اور آج کراچی امن و امان کے لحاظ سے 6 سے  130 نمبر پر آگیا۔ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات کراچی پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں تاہم اسے ہم بہتر کررہے ہیں‘۔

’جماعت اسلامی اور پی پی کی سیٹیں برابر ہیں‘

شہلا رضا کا مزید کہنا تھا کہ ’جو سیٹیں زیادہ تھیں اس پر اعتراض ہوا دوبارہ کاؤنٹگ کی گئی جس میں جماعت اسلامی اور پی پی کی سیٹیں برابر ہیں۔ ہمیں یقین ہیں کہ مزید ری کاؤنٹگ میں پی پی کی سیٹوں میں اضافہ ہوگا۔ اگر بے ایمانی ہوتی تو سامنے آجاتی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی کو یاد رکھنا چاہیے کہ عبد الستار افغانی میئر کراچی آئے تھے تو کس طرح ہمارے دو ووٹ روکے گئے تھے۔ نعمت اللہ خان کی بہت عزت کرتی ہوں انہوں نے کہا تھا بینظر بھٹو نے جس کام کا آغاز کیا تھا ہم نے اسی کام کو آگے بڑھایا اور یہ چلتا رہے گا‘۔

’کراچی کبھی پی پی کے پاس رہنے نہیں دیا گیا‘

پی پی رہنما کے مطابق ’کراچی تو کبھی پی پی کے پاس رہا ہی نہیں اور رہنے ہی نہیں دیا۔ دس سال جماعت اور تیس سال سے زائد ایم کیو ایم کے پاس رہا۔ ان دونوں کے زمانے میں کوئی ماڈل یوسی بتا دیں۔ کے ایم سی کے اسکول، ہسپتال کا حال دیکھ لیں۔ جماعت کے دور میں شہر کو کمرشلائز کیا گیا۔ نسلہ ٹاور توڑا گیا۔ آج کراچی کے سیوریج کا نظام تباہ ہے۔ کراچی کی بلند و بالا عمارتوں کو کمرشلائز کرنے کی وجہ سے سیوریج کا نظام تباہ ہوا۔ کراچی کو 1965ء سے پانی کی صرف دو لائنیں فراہم کی گئیں اور تیسری اور آخری لائن بے نظیر بھٹو نے دی۔ کراچی کو تعصب اور مذہب کی بنیاد پر اپنایا گیا صرف ڈھونگ رچایا گیا لیکن دیا کچھ نہیں‘۔

’ خواتین کے لیے 20 سیف ہاؤسز ہیں‘

شہلا رضا نے نمائندہ وی نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے پاس سندھ میں خواتین کے لیے 20 سیف ہاؤسز ہیں۔  ہمیں حکومت سندھ کی جانب سے پبلک سروس کمیشن کے تحت عملہ فراہم ہونا ہے جس میں ابھی مسائل ہیں۔ ہم ایک کمپلینٹ سیل چلا رہے، ہماری ہیلپ لائن بھی ہیں جس کو ہم نے ڈیجیٹلائز کر دیا ہے کہ اگر کسی خاتون پر تشدد ہوتا ہے تو ہم اس کو فری طبی سہولیات فراہم کرتے ہیں، بچیوں کے کیسز بھی دیکھتے ہیں‘۔

’ہم کسی کیس کو ہائی لائٹ نہیں کرتے‘

شہلا رضا نے مقدمات پر اثر انداز ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ جب تک گھر والے نہ چاہیں ہم کسی کیس کو ہائی لائٹ نہیں کرتے نہ ایسا کوئی قانون ہے۔ 18 سال سے کم عمر بچوں کے کیسز ہمارے ڈومین میں نہیں آتے یہ ڈپارٹمنٹ ’چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی‘ کے پاس ہے۔ البتہ جو دارالامان ہیں وہ میری منسٹری میں آتے ہیں۔ ہم وہاں آنے والی لڑکیوں کو سمجھاتے ہیں‘۔

’ عملے کی شدید کمی ہے‘

’میرے پاس عملے کی شدید کمی ہے ادارہ پورے اسٹاف سے بنتا ہے، خواتین کے اتنے مسائل ہیں کہ حکومت نے بین الاقوامی سطح پر کمیشن بنایا ہے، چاہے میرا ادارہ ہو یا کمیشن ہو اس میں عملے کی کمی ہے تو ہم کیسے مطمئن ہوسکتے ہیں۔ اسٹاف کی کمی کے باعث کچھ کیسز لیٹ آتے ہیں، پاکستان میں خواتین کو ہر جگہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

’پارٹی میں میرٹ ہونا چاہیے‘

ایک سوال کے جواب میں شہلا رضا کا کہنا تھا کہ ’پارٹی میں آنے کے لیے میرٹ کو ترجیح دینی چاہیے پارٹی کے اندر جتنی جمہوریت ہوگی اتنا ہی خواتین بہتر پرفارم کریں گی‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp