جہاں ایک طرف انسان نے مریخ پہ پانی دریافت کیا، جیمز ویب ٹیلی سکوپ، مصنوعی انسانی اعضاء اور کئی دوسری ایجادات نے اکیسویں صدی کے اوائل میں انسانی شعور کی سمتوں کا تعین کیا، اور دوسری طرف بیسویں صدی کے اختتام پر برپا ہونے والے ٹیکنالوجی کے انقلاب نے اکیسویں صدی میں برق رفتاری سے انسانی شعور کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے مصنوعی ذہانت کے ذریعے ناقابلِ یقین حد تک ترقی کر لی ہے، وہیں اس دنیا میں انسان آج بھی ماقبل تاریخ کی ثقافت کو برابر زندہ رکھتے ہوئے نہ صرف غاروں اور جنگلوں میں رہتا ہے بلکہ اپنے قدیم ورثے کے ساتھ ہمہ تن جی رہا ہے۔
آج بھی سینکڑوں ایسے قبائل موجود ہیں جو باقی دُنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ تقریباً ان تمام قبائل کا ذریعہ خوراک شکار ہے۔ براعظم شمالی امریکہ میں ایسے 6، افریقہ میں 4، اور ایشیاء اور آسٹریلیا میں ایسے 7 مختلف قبائل آباد ہیں جن کے بارے میں دنیا بہت کم جانتی ہے۔ ایسے ہی کچھ قبائل براعظم شمالی امریکہ میں موجود ہیں جو بیرونی دنیا سے نہ صرف کٹے ہوئے ہیں بلکہ انتہائی کم رابطے کی وجہ سے ان کی زندگیوں کے متعلق مختصر ترین معلومات سامنے آئی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں ان قبائل کے متعلق اب تک ہم کیا جانتے ہیں۔
وہ قبیلہ جہاں بچہ اپنا نام خود تجویز کرتا ہے
ایسا ہی ایک قبیلہ برازیل کے جنگلات ایمازون میں اپنی چھوٹی سی دنیا بسائے ہوئے ہے۔ اس قبیلے کا نام آوا ہے۔ آوا مرد دن کو شکار پر جاتے ہیں۔ شکار کے لیے آوا لوگ تیر کمان کا استعمال کرتے ہیں۔ آوا قبیلے کے لوگ ہر اس جانور کا شکار کرتے ہیں جو انہیں نظر آ جائے مگر کچھ ایسے رسوم و عقائد ہیں کہ آوا لوگ باز کا شکار نہیں کرتے کیونکہ یہ ان کے لیے مقدس ہے۔
اس قبیلے کی خاص بات یہ ہے یہاں بچوں کے نام نہیں رکھے جاتے۔ بچہ جب ایک خاص عمر میں پہنچتا ہے تو وہ اپنا نام خود تجویز کرتا ہے۔ یہ گوجا زبان بولتے ہیں جو کہ آج تک کی دریافت شدہ قدیم زبانوں میں سے ایک ہے۔ شہد ان کی خوراک کا ایک اہم حصہ ہے۔ برازیل میں معدنیات کی تلاش اور جنگلات کا کٹاؤ اس پراسرار قبیلے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
ہے نا مزے کی بات کہ انسان اپنی سب سے بڑی شناخت یعنی اپنا نام خود رکھتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر آپ کو اپنا نام خود رکھنے کی آزادی ہوتی تو آپ کی زندگی پر کیا اثرات مرتّب ہوتے اور آپ اپنا کیا نام رکھتے۔ خیر ہم اپنے اس نام کے ساتھ جو دوسروں نے ہمارے بچپن میں کہیں رکھ دیا تھا سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور آگے بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ دوسرے قبیلے کی خاص بات کیا ہے؟
طلاق یا خلع کی اجازت نہ دینے والا قبیلہ
ایمازون کے جنگلات کے باہر پیراگوئے میں آباد اس قبیلے کا نام آئریو ہے۔ یہ قبیلہ تقریباً 150 لوگوں پر مشتمل ہے۔ سروائول انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق بولیویا اور پیراگوئے میں تقریباً 5000 آئریوی نسل کے لوگ آباد ہیں۔ یہ لوگ بیسویں صدی میں کئی نوآبادیاتی نظاموں کی بھینٹ چڑھے اور بولیویا اور پیراگوئے کے مختلف علاقوں میں دوبارہ آباد کیے گئے۔ جبکہ ان کے آباؤ اجداد نے اپنی ثقافت کے کے لیے نوآبادیاتی نظاموں کے خلاف طویل جنگ لڑی اور آج بھی اس قبیلے کے کچھ لوگ اس برق رفتار دنیا سے دور شکار کھیلتے ہیں اور زندگی جیتے ہیں۔ ویسے کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ 7 برسوں سے اس قبیلے سے متعلق کوئی خبر نہیں۔
اس قبیلے کی خاص بات یہ ہے کہ اس قبیلے میں وراثت اور طلاق کا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی کی ایک ایک اینٹ خود جوڑتا ہے اور مرتے وقت اس کے پاس کسی شے کی کوئی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ وہ قبیلے کی پراپرٹی کہلاتی ہے اور سب کچھ سانجھا ہوتا ہے۔ یہاں ایک سے زیادہ شریکِ حیات رکھنے کی بھی اجازت ہے لیکن آپ ایک بار شادی کرنے کے بعد اپنے شوہر یا اپنی بیوی کو زندگی بھر نہ طلاق دے سکتے ہیں اور نہ اس سے خلع لے سکتے ہیں۔
ایک طرف تو یہ غلامی معلوم ہوتی ہے مگر دوسری طرف ایسے لگتا ہے کہ وفا شرط ہے۔ وراثت کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے یہاں زندگی اپنی تمام تر خوبصورتی میں جلوہ گر محسوس ہوتی ہے اور فرد اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جینے کی عملی مثال بنتا ہے لیکن سماج کی حاکمیت فرد کی آزادیوں کے بر خلاف بھی ہو سکتی ہے۔ مگر یہ تصورات گہرے اور گنجلک فلسفیانہ سوالوں اور موشگافیوں کے لیے رہنے دیتے ہیں۔ آئیے ہم اگلے قبیلے سے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
ملاقات کے خواہشمندوں پر حملہ کرنے والا قبیلہ
کواہیوا لوگ برازیل کے جنگلوں میں خانہ بدوشوں کی زندگی جی رہے ہیں۔ یہ ان قبائل کی فہرست میں ایک نمایاں قبیلہ ہے جس نے دوسرے انسانوں کے ساتھ میل ملاپ و روابط بحال نہیں کیے۔ یہ ہم جیسے انسانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اگر حکومت یا کوئی تنظیم ان سے ملنے کی کوشش کرے تو یہ ان پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ ایسے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں جن میں کواہیوا لوگ اپنی طرف آنے والے لوگوں پر تیر کمان کے ساتھ حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔
یہ قدیم ہنٹر گیدرر قبیلہ اب نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ چونکہ اس کی آبادی بہت کم ہے مگر اس سے بھی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس قبیلے کے بارے میں معلومات حاصل نہ کی جا سکیں۔ وجہ اس دوسرے خطرناک قبیلوں کی طرح عام انسانوں کی طرف کواہیوا لوگوں کا جارحانہ رویہ ہے۔ کافی عرصہ قبل یورو نیوز کے ایک کیمرہ مین اس قبیلے کی تصاویر بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ یوٹیوب پر گردش کرتی ایسی ہی ایک ویڈیو کو دیکھا جا سکتا ہے جس میں یہ قدیم اور نایاب لوگ کسی دریا کنارے گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس ویڈیو کو آج تک 3 ملین لوگ دیکھ چکے ہیں۔ مگر اس کے علاوہ اب تک اس قبیلے کی کوئی خبر نہیں۔
جہاں ہمارے پاس ایک طرف ان قبائل کے متعلق بہت کم معلومات ہیں وہیں دوسری طرف حکومتیں اور پرائیوٹ کمپنیوں نے مختلف ریفارمز کے نام پر ان لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ برازیل پیرو اور پیراگوئے میں جنگلات کے کٹاؤ اور مختلف شاہراہوں کی تعمیر کے سلسلے میں ان لوگوں کے مسکن اجڑنے لگے جس سے نمٹنے کے لیے یہ قبائل مکمل خانہ بدوش بن گئے۔ لیکن جدید انسان کا قدیم انسان کے خلاف انسان دشمنی کا یہ سلسلہ نہیں رکا۔
ایسی کئی کوششوں کے بارے میں باقاعدہ سے خبریں موجود ہیں جہاں شمالی امریکہ کے ان باشندوں کو حکومتوں اور پرائیویٹ کمپنیوں کی جانب سے خاطر خواہ نقصان پہنچایا گیا۔ یہاں تک کہ جب یہ لوگ جدید دنیا کی ان کاروائیوں کو اپنی ثقافت پر یلغار سمجھتے ہوئے روکنے کے لیے آگے بڑھتے یا حکومتی اور پرائیویٹ کمپنیوں کے پراجیکٹس پر کام کرنے لوگوں پر حملہ آور ہوتے تو ان کو کچلنے کے لیے ان کی نسل کشی شروع کر دی جاتی۔
ان قبائل کے لیے چند انسانیت پرست تنظیموں نے آواز اٹھانا شروع کی جس کے بعد ان کی نسل کشی کا سلسلہ قدرے سست ہو گیا۔ ان تنظیموں میں سروائیول انٹرنیشنل سر فہرست ہے۔ مگر جس طرح جدید دور کا انسان قیمتی ہے بالکل ٹھیک اسی طرح جدید دور میں بسنے والے قدیم دور کے یہ نمائندہ انسان بھی بہت قیمتی ہیں۔ بلکہ ان کی نظر میں تو یہ ہم جیسے زومبیز جو موبائل ہاتھ میں پکڑے دیواروں سے ٹکریں مارتے گھوم پھر رہے ہیں، ان سے کئی درجہ کمتر ہوں گے۔