عربی زبان دنیا کی چند اہم ترین زبانوں میں سے ایک ہے، اقوامِ متحدہ نے 18 دسمبر کو عربی زبان کا عالمی دن منانے کے لیے مختص کیا ہے تاکہ انسانی تہذیب میں اس کے لازوال کردار اور تاریخی اہمیت کو سراہا جا سکے۔ یہ اقوامِ متحدہ کی 6 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے، جس سے اس کی عالمی حیثیت اور اثرورسوخ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
عربی زبان صرف رابطے کا ایک ذریعہ ہی نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی تہذیب اور علم کا ذخیرہ ہے جس نے شروع ہی سے انسانیت کو متاثر کیے رکھا ہے۔ یہ زبان ایک ایسے وسیع و عریض تہذیبی ورثے کی حامل ہے، جس نے دنیا کے ہر خطے میں اپنی چھاپ چھوڑی۔ آج کوئی بھی ملک جو عرب دنیا کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے، اسے عربی زبان میں مواد تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ عرب ثقافت کے ساتھ گہرے روابط قائم ہو سکیں۔
پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) نے 1980 کی دہائی میں ایک نیا باب رقم کیا جب اس نے عربی زبان میں اپنی خبریں نشر کرنا شروع کیں۔ اس بلیٹن کا نام (الاخبار) رکھا گیا، اور یہ پاکستان کی جانب سے عرب دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کی ایک منفرد کوشش تھی۔ یہ خبریں ایک ثقافتی پل کا کام کرتی تھیں، جو پاکستان اور عرب دنیا کے مابین سفارتی اور ثقافتی روابط کو فروغ دینے میں نہایت اہمیت کی حامل تھیں۔
اس وقت عرب عوام بالخصوص خلیجی ممالک کے ناظرین پاکستانی نقطہ نظر کو سمجھنے اور پاکستان کے اندرونی حالات کا براہِ راست اور معتبر ذریعہ حاصل کرنے لگے۔ یہ صرف خبروں کی ترسیل کی حد تک بات نہیں تھی، بلکہ یہ پاکستانی عوام اور عرب دنیا کے درمیان ایک گہرے تعلق کی بنیاد تھی۔ ان خبروں میں علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر پاکستان کا موقف پیش کیا جاتا اور دونوں طرف کے عوام کو ایک دوسرے کے بارے میں آگاہی ملتی۔
یہ بلیٹن پاکستان اور عرب دنیا کے درمیان نہ صرف سفارتی تعلقات مضبوط کرنے کا ذریعہ تھا بلکہ یہ ایک مشترکہ اسلامی اخوت اور دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے میں بھی کلیدی کردار ادا کررہا تھا۔ ان خبروں نے عرب دنیا میں موجود پاکستانیوں کو اپنی مادری زبان کے بجائے ایک ایسی زبان میں وطن کے حالات سے باخبر رہنے کا موقع دیا، جسے وہ دوسری زبان کے طور پر بخوبی سمجھتے تھے۔
1980 کی دہائی کی ان مثبت کوششوں کے باوجود آج کے دور میں ان کوششوں کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ بھی بہت ضروری ہے کہ بلیٹن کو عصری ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے، حالیہ بلیٹن میں زبان کی خامیاں نظر آرہی ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے، یہ بات بہت اہم ہے کہ اخبار پڑھنے والا شخص عربی لہجے میں پڑھے جس میں عجمیت بالکل بھی نہ ہو۔ عرب ممالک میں لاکھوں پاکستانی مقیم ہیں، اور وہاں کے عوام بھی پاکستان میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ عربی زبان میں میڈیا کو جدید تقاضوں کے مطابق مزید بہتر بنانا ناگزیر ہو چکا ہے، تاکہ پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان مضبوط رابطہ قائم ہو سکیں۔
پاکستانی ٹیلی ویژن کے پاس ایک سنہری موقع ہے کہ وہ ان نوجوان پاکستانیوں کو شامل کرے جو عرب دنیا میں پیدا ہوئے اور وہیں پرورش پائی۔ یہ نوجوان نہ صرف عربی زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں، بلکہ عرب ثقافت کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں، اور ان کی صلاحیتیں پاکستان کے مثبت اور متنوع چہرے کو عرب دنیا میں پیش کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح اگر پاکستانی وزارتِ اطلاعات باقاعدہ ایک عربی میڈیا ڈویژن قائم کرے، جو عرب دنیا میں پاکستان سے متعلق مواد کی تیاری اور اشاعت کا مرکز ہو، تو یہ ایک تاریخی قدم ہوگا۔ اس ڈویژن کے ذریعے پاکستان کے مختلف پہلوؤں جیسے کہ ثقافت، تاریخ، اقتصادی ترقی اور سائنسی کامیابیوں کو عرب دنیا میں بہتر انداز میں اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ، سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر احمد فاروق، نیز جدہ قونصلیٹ میں پریس قونصل چوہدری عرفان اور پاکستان میں وفاقی سیکریٹری اطلاعات ونشریات عنبرین جان ان کوششوں کو مضبوط و فعال کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بہت ساری ایسی کوششیں آپ کو عربی سوشل پر ملیں گی جن کے پیچھے پاکستانی افراد شامل ہیں، کچھ پروفیشنل ہیں، اور کچھ بے ہنگم کام کررہے ہیں۔ ان میں سے سب سے قدیم کاوش پاکستان بالعربیہ پلیٹ فارم کی ہے، جو 2015 میں شروع ہوئی۔ اس کے علاوہ حال ہی میں (وی نیوز) نے بھی عربی زبان میں پاکستان کی ایک بہتر تصویر پیش کرنے کے لیے اپنی جہدِ مسلسل کو حصہ بنایا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ایک منظم اور پروفیشنل کاوش کی ابتدا کی جائے، جس کے لیے وزیر اطلاعات ونشریات کی عنایت ضروری ہے۔
آخر کار وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف کی قیادت میں حکومتِ پاکستان عربی زبان میں ایک مؤثر میڈیا پلیٹ فارم تیار کرسکتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا کا ذاتی طور پر عربی زبان میں دلچسپی لینا اور عرب دنیا کے لیے سوشل میڈیا پر ایک خصوصی اکاؤنٹ کا آغاز کرنا ان اقدامات کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے۔ عربی زبان میں ایک مضبوط اور فعال میڈیا پلیٹ فارم پاکستان اور عرب دنیا کے درمیان ثقافتی، سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کر سکتا ہے، اور یہ قدم پاکستان کی عرب دنیا میں ایک نئی اور فعال شناخت پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔