وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانونی امور بیرسٹر عقیل ملک نے کہا ہے کہ آئینی عدالتوں کی بات اب سے نہیں سنہ 2006 سے ہو رہی ہے اور جب سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تھے اس میں بھی یہ کہا گیا تھا کہ ملک میں آئینی عدالتوں کا قیام ہونا چاہیے۔
وی ایکسکلوسیو میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے پہلے پیش ہو یا بعد میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ آئینی ترمیم کسی ایک شخص کو فائدہ دینے کے لیے نہیں لائی جا رہی۔
بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی چند اہم تجاویز دیں جن کو ہم نے اپنے مسودے میں شامل کیا جبکہ بعض تجاویز پر انہوں نے اعتراض کیا تھا جس پر ان تجاویز کو ختم کر دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا عدالتی نظام حد سے زیادہ سیاسی ہو گیا ہے جبکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کی آزادی کے بعد صرف وردی والے آئینی ترمیم کرسکتے ہیں، بلاول بھٹو
انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے ایک سیاسی جماعت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک انتشاری جتھا ہے تاہم پھر بھی ہم اس جماعت کو کالعدم قرار دینے کے حق میں نہیں ہیں تاہم سیاسی میدان میں اس کا مقابلہ کریں گے۔
بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا تھا کہ یرسٹر گوہر کسی کھاتے یا ریکارڈ میں پی ٹی آئی کے چیئرمین نہیں اور کلیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق آج بھی وہ ایک آزاد حیثیت سے رکن قومی اسمبلی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے وہ کسی بھی وقت پارٹی چھوڑ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان جیل کے اندر ہوں یا باہر، حکومت کو ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے اور میں تو چاہتا ہوں کہ عمران خان آج ہی جیل سے باہر آئیں اور دیکھیں کہ ملک اب کہاں کھڑا ہے اور وہ کہاں چھوڑ کر گئے تھے۔
مزید پڑھیے: مولانا فضل الرحمان آئینی عدالت کے قیام کے حق میں ہیں، عرفان صدیقی
ان کا کہنا تھا کہ عوام اب تبدیلی نہیں دیکھنا چاہتے کیوں کہ انہوں نے جو گزشتہ ایک سال میں حقیقی تبدیلی دیکھی ہے اس سے خوش ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عوام جب ڈالر کے ریٹ، پیٹرول کی قیمتوں میں کمی اور مہنگائی کو 38 فیصد سے کم ہو کر 8، 9 فیصد پر دیکھتے ہیں تو بیحد خوش ہوتے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانونی امور نے کہا کہ حکومت سنبھالتے ہی اس آئینی ترمیم پر کام ہو رہا تھا اور وزارت قانون نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی قیادت میں آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مسودہ نہ تو کسی اور نے تیار کیا اور نہ ہی کسی کے کہنے پر تیار کیا گیا اور اس میں اتحادیوں اور مولانا فضل الرحمن کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے تاہم اس پر کچھ کام اب بھی جاری ہے کیوں کہ جب تک مکمل اعتماد نہیں حاصل ہو جاتا اس وقت تک آئینی ترمیم پیش نہیں کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں احتجاج سے ایک دن قبل عمران خان نے بیرسٹر علی ظفر کو کیا پیغام دیا؟
بیرسٹر عقیل ملک نے پی ٹی آئی ارکان کی حمایت حاصل ہونے کے سوال کے جواب میں کہا کہ پی ٹی آئی میں چونکہ لوگ دیگر جماعتوں سے آئے تھے اور ان لوگوں کا اپنی پرانی جماعتوں یعنی نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے اب بھی رابطہ ہے تو ایسے لوگوں نے اپنی پرانی پارٹی سے خود رابطہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ آئینی ترمیم میں حمایت کے لیے تیار ہیں۔
ماضی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سہولت صرف پی ٹی آئی کو ہی حاصل تھی کہ ایک فون کال پر ان کے لیے نمبرز پورے کر لیے جاتے تھے لیکن ہم ایک سیاسی جماعت ہیں اور سیاست پر ہی یقین رکھتے ہیں۔