سابق وزیراعظم اور چئیر مین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے 4 اکتوبر کو کارکنان کو ڈی چوک پہنچ کر احتجاج کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ دوسری جانب ملائیشیا کے وزیراعظم بھی 2 سے 4 اکتوبر تک پاکستان کے دورہ پر تھے جس کے سبب اسلام آباد کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا۔
اس ساری صورتحال کے دوران شہر میں کسی بھی بد نظمی سے بچنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے شہر کے تمام داخلی راستوں کو بند کیا گیا اور شہر میں موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز بھی بند کردی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: انٹرنیٹ سروس میں تعطل نے فری لانسرز کو فکر معاش میں مبتلا کردیا
موبائل فون سروس بند ہونے کی وجہ سے شہریوں کو آمدورفت اور رابطوں میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وی نیوز نے اس حوالے سے شہریوں سے بات کرکے جاننے کی کوشش کی کہ انہیں اس بندش سے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
شاہد حسین کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ آن لائن ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جتنی بھی کیب سروسز کے ڈروائیورز ہیں انہیں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ فون سروس بند ہونے کے باعث درپیش ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب وہ صبح گھر پر تھے تو انہیں ایک رائیڈ کی آفر آئی جو انہوں نے قبول کرلی اور کسٹمر کو ایپ کے میسجنگ آپشن سے مطلع کر دیا کہ وہ کب تک ان کی لوکیشن پر پہنچ جائیں گے اور یہ بھی بتادیا کہ چوں کہ انٹرنیٹ سروس بند ہے اس لیے گھر سے نکلنے کے بعد ان کے پاس وائی فائی نہیں ہوگا۔
شاہد حسین نے کہا کہ میں گھر سے نکل آیا اور کچھ راستے بھی بند تھے جس کی وجہ سے میں نے جو وقت کسٹمر کو دیا تھا اس میں تاخیر ہوگئی لیکن میں جب اس لوکیشن پر پہنچا تو بہت مشکل سے رابطے کے بعد پتا چلا وہ تو جا چکے ہیں اور انہوں نے میری رائیڈ کینسل کر دی ہے جبکہ میں ان کی لوکیشن پر کافی دیر انتظار بھی کرتا رہا۔
مزید پڑھیے: ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس میں معطلی کی شکایات
ان کا کہنا تھا کہ انہیں 1500 روپے کا نقصان ہوا اور راستوں کی مشکل الگ سے کاٹی اور انتطار بھی کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب وہ گھر واپس جانے لگے تو انہیں راستے میں کوئی رائیڈ بھی نہیں ملی۔
انہوں نے سوال کیا کہ اب جو نقصان انہیں اٹھانا پڑا اس کا ذمے دار کون ہے۔ انہوں نے یہ شکوہ بھی کیا کہ چھوٹے کاروباریوں اور مزدوروں کے نقصان کے حوالے سے حکومت سمیت کوئی نہیں سوچتا۔
شاہد حسین نے کہا کہ میں گھر سے مجبوری میں رائیڈ کے لیے نکلا تھا ورنہ اس صورتحال میں کون گھر سے نکلتا ہے لیکن کوئی کمائی ہونا تو دور کی بات انہیں الٹا 1500 روپے کا نقصان ہوگیا۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے محمد احمد نے بتایا کہ سروس بند کر دینے سے صرف رابطے منقطع نہیں ہوتے بلکہ جن افراد نے کالز اور انٹرنیٹ پیکجز کروائے ہوتے ہیں ان کا بھی نقصان ہوتا ہے کیوں کہ تقریباً تمام نیٹ ورکس کے پیکجز مہنگے ہیں اور اگر سروس ہی بند ہو تو آپ کا ڈیٹا استعمال نہیں ہوتا لیکن پیکج کے جو مخصوص دن ہوتے ہیں اس میں سے وہ دن تو ضائع ہو ہی جاتا ہے۔
محمد احمد نے کہا کہ بہت سے افراد ایسےبھی ہوں گے جنہوں نے ایک دن کا پیکج کروایا ہوگا اس طرح ان کے پیسے بھی ضائع ہو گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیٹ ورک کمپنیوں کو چاہیے کہ وہ اس طرح کی صورتحال میں کسٹمرز کو رعایت دیں اور جس دن موبائل فون سروس بند ہو اس دن کو پیکج میں شامل ہی نہ کیا جائے تاکہ موبائل فون صارفین نقصان سے بچ سکیں کیوں کہ اس میں صارفین کا تو کئی قصور نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: موبائل فون سروس کی بندش کو ملک میں دہشت گردی کی لہر کے تناظر میں دیکھا جائے، نگراں وزیراعظم
راولپنڈی سے ہی تعلق رکھنے والی عالیہ امجد ہوم شیف ہیں اور وہ خاص طور پر بیکنگ آئٹمز آن لائن فروخت کرتی ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ 4 اکتوبر کے لیے ان کے پاس کیک کے 5 آرڈرز تھے جو گزشتہ ہفتے بک ہوئے تھے اور کلائینٹس کو آج ہر صورت وہ سپلائی کرنے تھے۔ انہوں نے کہا کہ کیک تو بن کر تیار ہو چکے ہیں لیکن صبح سے صرف 2 کسٹمرز تک ہی پہنچا سکی ہوں کیوں کہ گھر پر تو وائی فائی ہے لیکن باہر موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند ہے اس لیے رائیڈر بھی آرڈر نہیں لے پا رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صبح سے اب شام ہونے کو آئی ہے لیکن 3 کیک اب تک ڈیلیور نہیں ہو پائے حالاں کہ انہوں نے رائیڈر کو زیادہ پیسوں کی پیشکش بھی کی لیکن بائیک رائیڈر کا کہنا تھا کہ راستے بند ہیں جبکہ انٹرنیٹ اور فون سروس بھی نہیں اس لیے وہ دور کا کوئی بھی آرڈر نہیں لے رہے خصوصاً اسلام آباد کا تو بالکل بھی نہیں کیوں وہاں کے تمام داخلی راستے بند ہیں۔
عالیہ امجد نے کہا کہ کسٹمرز تو اچھے ہیں اور ان کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ آج کسی بھی وقت ڈیلیور کروا دیں لیکن ظاہر ہے وہ کل تک تو انتظار نہیں کریں گے اور پھر کیک کی تازگی بھی متاثر ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ میرے صرف پیسے ہی نہیں بلکہ محنت بھی ضائع ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کے دور میں ایک روپیہ کمانا بھی بہت مشکل ہے لیکن اس ملک میں آئے روز یہی سب ہوتا ہے جو عوام کے لیے شدید پریشانی اور مشکل کا باعث بنتا ہے۔