وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ملاقات کی ہے اور شکوہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت نے صوبے کے معاملات پر غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطاق وزیراعظم شہباز شریف سے گورنر فیصل کریم کنڈی کی ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، اور اس موقع پر وزیر داخلہ محسن نقوی، احسن اقبال اور دیگر بھی موجود تھے۔
یہ بھی پڑھیں پی ٹی آئی احتجاج: مظاہرین کے پتھراؤ سے اسلام آباد پولیس کے آفیسر سمیت 3 اہلکار زخمی
میڈیا رپورٹس کے مطابق گورنر نے شکوہ کیاکہ وفاقی حکومت نے صوبہ خیبرپختونخواہ کو پی ٹی آئی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
گورنر وزیراعظم کو موجودہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے مختلف آپشنز دیے اور معاملات میں دلچسپی لینے کی درخواست کی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق فیصل کریم کنڈی نے کہاکہ ہم تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں، اس کے لیے ہمیں سپورٹ کیا جائے۔
اس کے علاوہ گورنر خیبرپختونخوا نے وزیراعظم شہباز شریف کو اگلے ہفتے صوبے کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے آج اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کی کال دی ہے، اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا قافلہ لاؤ لشکر سمیت دارالحکومت کی جانب رواں دواں ہے۔
دوسری جانب انتظامیہ نے بھی مظاہرین سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی طے کرلی ہے، اس وقت ڈی چوک میں پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس آمنے سامنے ہیں، جبکہ دیگر مقامات پر بھی پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ کی جارہی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر بیرسٹر سیف نے الزام عائد کیا ہے کہ وفاقی اور پنجاب حکومت ہمارے پرامن احتجاج سے خوفزدہ ہیں، اور ن لیگ کے مسلح کارکنان ہماری صفوں میں شامل کیے گئے ہیں، لیکن ہم ہر صورت ڈی چوک پہنچیں گے۔
کیا خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگایا جاسکتا ہے؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جہاں صوبوں اور وفاق کے درمیان امور ناسازگار ہونے کے سبب گورنر راج لگانے کی بازگشت شروع ہوجاتی ہے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد بھی چند وفاقی وزرا نے گورنر راج لگانے کی تجویز دی تھی تاہم یہ آئینی اعتبار سے ممکن نہ تھا۔
صوبے میں گورنر راج لگانے کا طریقہ کار کیا ہے؟
آئین میں وفاق کو صوبے میں ایمرجنسی لگانے کے حوالے سے ایک پورا باب مختص ہے اور اس میں صوبے میں ایمرجنسی لگانے سے متعلق تمام تفصیلات دی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں:عمران خان کی رہائی کے لیے 2 ہفتے کی ڈیڈلائن دیتا ہوں، علی امین گنڈا پور کا جلسہ عام سے خطاب
آئین کا آرٹیکل 232 صدر مملکت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ اگر صدر مملکت یہ سمجھتے ہیں کہ صوبے میں ایسی ایمرجنسی درپیش ہے جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہو، اندرونی یا بیرونی شورش کا معاملہ ہو جو صوبے کے کنٹرول سے باہر ہے تو ایسی صورت میں صدر مملکت صوبے میں ایمرجنسی لگانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ جس کے لیے انہیں متعلقہ صوبائی اسمبلی سے قراردار کی منظوری لینا ہوگی۔
صوبائی اسمبلی کی قرار داد کے بغیر اگر صدر مملکت صوبے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایسی صورت میں مجلس شوریٰ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانوں سے 10 روز کے اندر قرار داد منظور کروائی جانا لازم ہے۔
ایسی صورتحال میں صوبے کے انتظامی امور اور قانون سازی کا آختیار وفاق کے پاس چلا جاتا ہے۔ وفاق خود یا اپنے نمائندے گورنر کے ذریعے صوبے کے معاملات کو چلا سکتے ہیں تاہم ایسی ایمرجنسی کی صورت میں صوبے کی عدالتیں متاثر نہیں ہوں گی۔
گورنر راج یا صوبے میں ایمرجنسی کی مدت صرف 2 ماہ ہے اور اس کے لیے بھی مجلس شوریٰ سے منظوری لی جائے گی تاہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک مدت میں ایک دفعہ 2 ماہ کی توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔
آئین کا آرٹیکل 232 کے تحت موجودہ صورتحال میں خیبر پختونخوا میں صدر مملک گورنر راج لگا سکتے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کے پاس قومی اسمبلی اور سینیٹ میں عددی اکثریت موجود ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ اگر حالات ناگزیر ہوجائیں تو گورنر راج لگایا جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں حالات ناگزیر ہوجائیں تو خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگ سکتا ہے، بلاول بھٹو
اس کے علاوہ جب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اسلام آباد جلسے کے بعد لاپتا ہوئے تھے تو بیرسٹر سیف نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ وفاقی حکومت گورنر راج لگانے کی تیاری کررہی ہے۔