ریٹائرمنٹ اور توسیع کے درمیان جھولتی عدالتی تاریخ

ہفتہ 5 اکتوبر 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے چند ماہ بعد عبوری آئینی حکم نامہ یعنی پی سی او جاری کیا تو چیف جسٹس سعید الزماں صدیقی نے اس کے تحت حلف نہیں لیا۔ سپریم کورٹ کے 5 اور ججوں نے بھی یہ اصولی مؤقف اختیار کیا۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے 7 ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ۔ان میں سے سینیئر ترین جج ارشاد حسن خان چیف جسٹس بن گئے۔

اس منصب پر رہ کر انہوں نے ظفر علی شاہ کیس میں نہ صرف 12 اکتوبر 1999 کے مارشل لا کو جائز قرار دیا بلکہ جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی عطا کر دیا۔

ارشاد حسن کی حسنِ کارکردگی سے متاثر ہو کر پرویز مشرف نے انہیں بعد از ریٹائرمنٹ چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا۔ ان کی نگرانی میں فراڈ ریفرنڈم ہوا جس نے ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی یاد تازہ کردی:

شہر میں ہو کا عالم تھا

جن تھا یا ریفرنڈم تھا

(حبیب جالب)

سنہ  2002 کا دھاندلی زدہ متنازع الیکشن بھی ارشاد حسن کے نامہ اعمال میں شامل ہے۔ وہ چیف الیکشن کمشنر بن کر تاریخ رقم کر رہے تھے تو سپریم کورٹ میں ان کے قریبی عزیز شیخ ریاض احمد چیف جسٹس کی حیثیت سے جنرل مشرف کی راہ میں آنے والی آئینی رکاوٹیں دور کر رہے تھے۔

جنرل پرویز مشرف نے لیگل فریم ورک آرڈر 2002  جاری کرکے اس کی کابینہ سے منظوری بھی لے لی تھی لیکن 2002 کے الیکشن سے ایک دن پہلے اس میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں 3 سال کا اضافہ کردیا۔ اس دن کا انتخاب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ الیکشن کے رولے گولے میں بات دب جائے گی لیکن یہ چال پٹ گئی۔

ممتاز قانون دان حامد خان کے بقول ’یہ ترمیم واضح طور پر جج صاحبان کی وفاداری کا صلہ تھی خاص طور پر چیف جسٹس شیخ ریاض احمد کے لیے جس نے مشرف اور فوجی حکومت کے حق میں فیصلے دیے تھے‘۔

ایل ایف او میں اس ترمیم پر وکلا نے تنقید کی اور آئین کے مطابق 65 برس کے لحاظ سے جسٹس ریاض کی ریٹائرمنٹ کے دن یومِ سیاہ منایا۔

سنہ2002  کے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آنے والی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے لیگل فریم ورک آرڈر کے خلاف آواز اٹھائی۔ حکومت کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے یہ توقع ہی نہیں تھی کہ وہ اس کی منظوری کے لیے ان کا ساتھ دیں گی۔ اس لیے وہ متحدہ مجلسِ عمل کی مدد سے 17ویں آئینی ترمیم منظور کروانا چاہتی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے 31 دسمبر 2004 کو وردی اتارنے کی شرط پر ایم ایم اے نے  17ویں ترمیم کی حمایت کر دی۔ اس ترمیم نے آئین کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس سے  پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات کو قانونی تحفظ مل گیا۔

ضیاء الحق 90 دن میں الیکشن کروانے کے عہد سے پھر گئے تھے اور جنرل پرویز مشرف نے مقررہ تاریخ کو وردی اتارنے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔

دونوں موقعوں پر جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کی قیادت یہ بات نہیں سمجھ سکی کہ جو ڈکٹیٹر اپنے حلف کا پاس نہیں کرتا، جس کے سر پر آئین توڑنے کی وجہ سے سنگین غداری  کی تلوار بھی لٹک رہی ہوتی ہے اس سے وعدوں کی پاسداری کی توقع عبث ہے۔ اس کی کہہ مکرنیوں پر اعتبار کر کے اسے بھنور سے نکالنا اس کے ساتھ تعاون کرنا ہی کہلاتا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے چند دن پہلے  کہا ہے  کہ ’کم از کم یہ پارلیمنٹ تو آئینی ترمیم کرنے کا مینڈیٹ نہیں رکھتی، اس جعلی قسم کی پارلیمنٹ ذریعے اتنی بڑی آئینی ترمیم ہونا نا انصافی ہے‘۔ یہ بات درست ہے لیکن مولانا سے پوچھا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ق سے زیادہ مشکوک مینڈیٹ کس کا ہو گا؟ جسے  ڈکٹیٹر نے بنایا، جتوایا اور چلایا تھا اور الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کے بطن سے پیٹریاٹ نکالی تھی۔ سیاسی انجینیئرنگ کے لیے ایجنسیوں اور نیب کو استعمال کیا تھا۔

تاریخ کے طالب علموں کو مشرف کے وردی میں دوبارہ صدر منتخب ہونے کے وقت  مولانا فضل الرحمان کا کردار بھی خوب  یاد ہے جس کی طرف چند دن پہلے وسعت اللہ خان نے اپنے کالم میں کچھ یوں توجہ دلائی ہے:

’لوگوں کو یاد نہیں رہتا کہ مولانا کتنے کمال چمتکاری ہیں۔ اکتوبر سنہ 2007 کے صدارتی انتخابات میں پرویز مشرف کو بارِ دگر منتخب کروانے کے بعد ہی انہوں نے خیبرپختونخوا اسمبلی توڑی تھی۔ پہلے ٹوٹ جاتی تو مشرف صاحب کو منتخب کرنے والا الیکٹورل کالج بھی ٹوٹ جاتا‘۔

بات سیاست کی طرف نکل گئی جب کہ ہمیں بات مشرف دور کے ججوں کی کرنی تھی جو اپنی مثال آپ تھے۔

ایل ایف او میں ایم ایم اے جو تبدیلیاں کروانے میں کامیاب ہوئی ان میں سے ایک تبدیلی ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ ختم کروانا تھا۔ اس کے نتیجے میں چیف جسٹس ریاض احمد کو منصب چھوڑنا پڑا۔

ان کے بعد ناظم حسین صدیقی چیف جسٹس بن گئے۔ انہیں بھی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 کے بجائے 65 سال ہونے کا بڑا غم تھا اور یہ ذاتی غم تھا کیونکہ آئین کا تیاپانچہ کرنے والی ترمیم سے انہیں مسئلہ نہیں تھا، وہ اسے جائز قرار دے چکے تھے۔  بس اس شق پر ہی تکلیف تھی جس سے ذاتی مفاد پر زد پڑ رہی تھی۔ اس اثنا میں ایک وکیل صاحب عدالت سے یہ وضاحت کروانے پہنچ گئے کہ ریٹائرمنٹ کی پرانی عمر بحال ہونے کا اطلاق کب سے ہو گا ؟ اس پر ایک بینچ بیٹھ گیا۔ ساری ترمیم جائز  لیکن اس کے ایک جزو کو جج صاحبان کی طرف سے کالعدم قرار دینے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔

یہ تو چیف جسٹس نے الگ سے بینچ بنا دیا نہیں تو بعض جج تو 17ویں ترمیم کے فیصلے کے وقت ہی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ ختم کرنے کی شق اڑانے کے چکر میں تھے۔ ایس ایم ظفر کے بقول ’مقدمے کو فوراً بحث کے لیے لگانے کی وجہ یہ تھی کہ چیف جسٹس ناظم صدیقی کی مدت 17ویں ترمیم کی وجہ سے ختم ہوا چاہتی تھی اور وہ جون کی کسی تاریخ میں ریٹائر ہونے والے تھے چنانچہ وہ اور چند دیگر جج صاحبان چاہتے تھے کہ 3 سال کا اضافہ جو ان کی مدت ملازمت میں ایل ایف او کے ذریعے ہوا تھا وہ دوبارہ بحال ہو جائے‘۔

حکومت کے قانونی بزرجمہروں نے حل یہ نکالا کہ جسٹس افتخار محمد چودھری کے تقرر کا نوٹیفکیشن ایک مہینہ  22 دن پہلے  کر دیا اور جسٹس ریاض احمد کے بعد  ناظم حسین صدیقی بھی 3 سال مزید ’ خدمت‘ نہ کر سکے۔

جنرل پرویز مشرف کو وقت سے پہلے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا مشورہ اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے دیا تھا۔

 ایس ایم ظفر جوانی میں جنرل ایوب خان کے وزیر قانون  تھے اور اب بڑھاپے میں مسلم لیگ ق کے سینیٹر بن کر حکومت کو مشورے عنایت کرتے تھے۔ ان سے جنرل مشرف نے پیشگی نوٹیفکیشن کی قانونی حیثیت پوچھی  تو انہوں نے ذہن کے نہاں خانے سے  ایک روشن مثال نکال کر ان کی تشفی کی:

’میں نے کہا ایسا کیا جاسکتا ہے اور میں نے ان کو اپنے دورِ وزارت (1965-69) کی ایک مثال دی کہ چیف جسٹس یعقوب علی جو مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے سینیئر ترین جج تھے لیکن ان کو چیف جسٹس کا منصب خالی ہونے پر چیف جسٹس متعین نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تو اس کا حل یہ نکالا گیا تھا کہ ان کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کر دیا جائے تاکہ اس طرح سینیارٹی کا معاملہ حل ہو جائے لیکن سپریم کورٹ میں اسامی خالی ہونے میں چند ماہ باقی تھے جبکہ چیف جسٹس ہائی کورٹ کی تعیناتی کا فیصلہ فوراً کیا جانا تھا۔ اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے جسٹس یعقوب علی کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا نوٹیفکیشن قبل از وقت کر دیا گیا اور اس طریقہ کار سے اس وقت کے ایک متنازع مسئلے کو حل کر لیا گیا تھا‘۔

(سینیٹر ایس ایم ظفر کی کہانی ان کی اپنی زبانی)

ناظم حسین صدیقی نے نوٹیفکیشن سے سبکی محسوس کی لیکن یہ کوئی نئی بات تو نہیں تھی، مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہی رہا۔ کسی نے ان کا فرمان  نہ مان کر  اہانت سہی پر تاریخ میں اچھے لفظوں میں اپنے ذکر کا جواز پیدا کر لیا اور کسی نے اطاعت گزاری سے رسوائی مول لی۔

ناظم صدیقی چیف جسٹس تو بن ہی گئے تھے لیکن ان کے 2 برادر ججز  ان سے سینیئر ہونے کے دعوے دار تھے۔ ایک تو افتخار محمد چودھری تھے جنہوں نے ناظم حسین صدیقی کے ساتھ ایک ہی دن حلف اٹھایا تھا۔ اول الذکر نے صبح اور مؤخر الذکر نے شام کو۔ گردشِ لیل ونہار ان کے درمیان باعثِ نزاع ٹھہری تھی۔

اسی طرح افتخار چودھری کا دعویٰ تھا کہ وہ جس وقت بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے، ناظم حسین صدیقی بس ہائی کورٹ کے جج تھے۔ ادھر جسٹس فلک شیر نے دونوں سے خود کو سینیئر ٹھہرانے کے لیے جنرل مشرف کے حضور عرضی ڈال رکھی تھی اور وہ سینیارٹی کا تعین ہائی کورٹ کے زمانے سے چاہتے تھے جس کے  وہ سنہ 1987 میں  جج بنے تھے۔

آج 20 سال بعد پھر سے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے اور ان کے درمیان اختلافات کی خبریں چل رہی ہیں۔ بے یقینی کی کیفیت ہے۔ حکومت چاہتی تو جسٹس منصور علی شاہ کی چیف جسٹس کی حیثیت سے تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کر کے کنفیوژن ختم کر سکتی تھی۔ آخر اسی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کا نوٹیفکیشن جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ سے 3 ماہ پہلے ہی نکال دیا تھا۔

دوسری طرف اب یہ خیال بھی راسخ ہو چکا ہے کہ حکومت آئینی ترمیم کے ذریعے ججوں کی مدتِ ملازمت میں اضافہ یا چیف جسٹس کے عہدے کی مدت مقرر کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو ریٹائر ہونے کو ترجیح نہیں دیں گے۔ اگرچہ منیر اے ملک جیسے ان کے بہی خواہ اس تاریخ کو ریٹائر ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ 26 اکتوبر کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف نہیں اٹھاتے تو آنے والے دنوں میں ججوں کی آپسی لڑائی شدت اختیار کرے گی جس سے بہت بڑا آئینی بحران جنم لے سکتا ہے۔

آخر میں میر انیس کا شعر ملاحظہ کیجیے:

عالم  ہے  مکدّر، کوئی  دل  صاف  نہیں  ہے

اس عہد میں سب کچھ ہے، پر انصاف نہیں ہے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp