8 اکتوبر 2005 کے تباہ کن زلزلے کو 19 سال بیت چکے ہیں۔ اس حادثے میں آزاد کشمیر اور خیبرپختونخواہ میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کیا زلزلے کے بعد مظفرآباد دنیا کا خطرناک ترین شہر بن گیا؟
زلزلے کے نتیجے میں آزاد کشمیر میں 48 ہزار لوگ جاں بحق جبکہ 33 ہزار افراد زخمی ہوئے تھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 18 ہزار بچے بھی شامل تھے جو زیادہ تر اسکولوں کی عمارتوں تلے دب کر لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اس تباہ کن زلزلے میں سرکاری و نجی شعبے میں 125 ارب روپے کا نقصان ہوا تھا۔
زلزلے سے تباہ ہونے والے علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے پوری دنیا نے پاکستان کی مدد کی اور سعودی عرب نے بھی فراخ دلی سے اپنا دست تعاون دراز کیا۔
ڈائریکٹر فنانس سیرا مختار احمد قریشی نے وی نیوز کو بتایا کہ سعودی عرب نے شروع میں ہی 3500 فیبریکیٹڈ شیلٹرزدے دیے تھے جو باغ اور مظفرآباد میں لوگوں کو فراہم کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ شیلٹرز 2 کمروں، ایک کچن اور ایک باتھ روم پر مشتمل تھے۔
مزید پڑھیے: میری کہانی
مختار احمد قریشی نے کہا کہ سعودی حکومت کے امدادی منصوبوں میں بڑے پروجیکٹس اسکول اور کالجز کی تعمیر کے تھے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے سب سے بڑا منصوبہ چھتر کلاس یونیورسٹی کمپس ہے جو آزاد کشمیر کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔
مختار احمد قریشی نے کہا کہ سعودی حکومت کی جانب سے مظفر آباد میں آزاد کشمیر کی سب سے بڑی مسجد تعمیر کروائی گئی جس پر 70 کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر سعودی حکومت کی امداد نہ ملتی اور دیگر ڈونرز بھی نہ ہوتے تو شاید ہماری حکومتوں کو تعمیر نو میں کئی سال لگ جاتے‘۔
مختار احمد قریشی نے کہا کہ بیرونی فنڈنگ کی وجہ سے بہت کم عرصے میں تعمیر و ترقی ہوئی اور اب زندگی پھر سے رواں دواں ہے۔