عمران خان کی گرفتاری سے بننے والے حالات سے جہاں پورے ملک کے حالات پر منفی اثرات پڑے وہیں خیبرپختونخوا کا نظام مکمل منجمد ہوکر رہ گیا ہے۔ آپ پختونخوا میں تحریک انصاف کی لیڈرشپ اور کارکنان کے ساتھ بیٹھ کر سمجھیں گے کہ ان کا بڑا مقصد حکومت میں رہنا ہے اور عمران خان کی رہائی ہے باقی پختونخوا کے حالات ان کی ذمہ داری ہے ہی نہیں۔ دوسری طرف وفاق نے پی ٹی ایم کو ایک ایسے وقت میں کالعدم قرار دیا ہے جب پی ٹی ایم کے اعلان کردہ پشتون جرگے کی تاریخ بالکل قریب آن پہنچی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں فیصلہ سازوں نے ہمیشہ وہ فیصلہ کیا جو حالات میں سدھار کی بجائے بگاڑ کا سبب بنا اور پی ٹی ایم پر پابندی عائد کرنے کے لیے بھی ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا جو سوچنے والوں کے لیے کافی حیرانی کا سبب ہے۔ پی ٹی ایم کے اعلان کردہ جرگے کے دن سے آج تک حکومت کو کوئی خاص اعتراض نہیں تھا بلکہ آپ اندازہ لگائیں کہ سابق وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان کو بھی اس پشتون جرگے کی حمایت کی اجازت تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ اچانک سب کچھ بدل گیا ؟
تحریک انصاف کی لیڈرشپ اور صوبائی حکومت بھی پی ٹی ایم کے جرگے کے حوالے سے متفق تھی۔ وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور اور منظور پشتین کے درمیان ملاقات بھی ہوئی، اسی طرح خیبرپختونخوا کی دیگر پشتون لیڈرشپ بھی اس جرگے کی حمایت کر رہی تھی جو کہ حالات کے تناظر میں آسان فیصلہ نہیں تھا لیکن تب کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا مگر اب کیوں؟
پی ٹی ایم کے خلاف کریک ڈاؤن کے بعد جس طرح تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ذمہ داری وفاق پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے وہ بھی حیران کن ہے۔ اس حوالے سے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں کہ اگر صوبے کی حکومت وفاقی وزیر داخلہ کے احکامات کی اتنی پابند ہے تو محسن نقوی صاحب نے چیف سیکرٹری کو تحریک انصاف کے اراکین اور وزراء کی گرفتاری کے لیے کیوں نہیں لکھا؟
یقین مانیں کہ جب خیبرپختونخوا میں پیدا ہونے والے حالات اور ان حالات کے بالکل متضاد حکومتی اقدامات سامنے آتے ہیں تو خوف اور وسوے گھیر لیتے ہیں۔ یہاں بیٹھ کر آپ کو بالکل یوں محسوس ہوگا کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر ہو رہا ہے۔ مگر ہاں آپ خود کو یہ تسلی دے کر مطمئن کر سکتے ہیں کہ جان بوجھ کر ایسا کرکے کوئی ملک کو نقصان کیوں پہنچائے گا؟
میرے خیال میں پی ٹی ایم پر پابندی ایک انتہائی قدم ہے کیونکہ اس وقت ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ نائن الیون کے بعد سے پشتون علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زندگیوں پر انتہائی منفی اثرات پڑے اور بدقسمتی سے فیصلے کی طاقت رکھنے والے اب تک یہاں کی عوامی امنگوں کو جاننے میں ناکام رہے ہیں۔ پی ٹی ایم سے منسلک اکثر نوجوانوں کے لہجے تلخ ہو سکتے ہیں۔ ان کی باتوں کی کڑواہٹ سے لوگوں کے جذبات بھی مجروح ہو سکتے ہیں۔ لیکن کیا بطور بڑے موجودہ یا ماضی کی حکومتوں نے ان تلخیوں کی وجوہات جاننے کی کوشش کی؟ اگر کوئی ان تلخیوں کے جاننے کا دعویدار ہے تو کیا ان تلخیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے؟
میرے ذہن میں سب سے بڑا سوال یہ آتا ہے کہ اگر جنگوں کے سائے میں پلے بڑھے یہ نوجوان تلخ باتیں کریں بھی تو حکومت کو اتنا فرق کیوں پڑے؟ بولنے دیں ان کو کیا ہوتا ہے۔ آخر ان کے مطالبات ملک کے آئین اور قانون کے تحت اپنے بنیادی حقوق سے متعلق ہی تو ہیں ؟ جہاں تک تلخ لہجوں کے اثرات کا تعلق ہے تو تلخیاں دور کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
حکمران طبقہ یہ کیوں نہیں سوچ سکتا کہ جو غلطیاں پہلے ہوئی ہیں اب ہم ان غلطیوں کا سدباب کریں گے اور پہلے جو کچھ ہوا جن کے نتائج ہم بھگت رہےہیں ان کی تلافی کرنے کی کوشش کریں گے۔
پی ٹی آئی اور پی ٹی ایم کے مقاصد بالکل الگ ہیں۔ پی ٹی آئی ہر صورت عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس میں دیکھنا چاہتی ہے جبکہ پی ٹی ایم کا بظاہر تو صرف ایک ہی مطالبہ ہے اپنے علاقے میں امن اور عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی روک تھام۔ تو ایسے میں ہم اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ پی ٹی ایم کی آواز کو بند کرنا موجودہ حالات میں کس قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ پی ٹی ایم سے شکایت ہی نہیں ہونی چاہیے۔ بالکل ہونی چاہیے لیکن ریاستیں ایسے اندرونی گلے شکوے دور بھی تو کرتی ہیں آخر ریاست کو ماں کا درجہ ویسے ہی تو نہیں دیا جاتا؟
دوسری طرف پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کی سمجھ بالکل نہیں آرہی۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے تحریک انصاف نے تعمیری سیاست نہ کرنے کا عہد کر رکھا ہو کیونکہ 2018 میں حکومت بھی تحفے میں دی گئی لیکن عمران خان صاحب تب بھی اپوزیشن لیڈر کی سیاست ہی کرتے رہے۔ اس وقت وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور صاحب بظاہر سپرمین دکھائی دے رہے کیونکہ یہ دوسری بار ہے کہ وہ اسلام آباد تک آسانی سے پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور پھر غائب ہوکر اچانک خیبرپختونخوا میں نمودار ہو جاتے ہیں لیکن یہ تک نہیں بتاتے کہ وہ کہاں تھے کیا کر رہے تھے اور ان کے پاس کیسی طاقتیں موجود ہیں کہ آج یہاں تو کل وہاں ؟
پختونخوا کی سیاست اور حالات کا جائزہ سوچ سمجھ کر لیں گے تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہم غلط کہاں کررہے ہیں اور کہاں درست سمت کا انتخاب کیے ہوئے ہیں۔ البتہ ہمیں سوچنا اخلاص اور ایمانداری سے ہوگا، اپنی اناؤں کو پس پشت ڈالنا ہوگا تب ہی اچھے کل کی بنیاد رکھ سکیں گے۔