شنگھائی تعاون تنظیم، کب کیا ہوا؟

بدھ 9 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد عوامی جمہوریہ چین نے 2001 میں رکھی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے قیام سے قبل 26 اپریل 1996 کو چین نے اپنے سرحدی علاقوں میں فوجی اعتماد سازی کی غرض سے شنگھائی فائیو نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی جس میں چین کی سرحدوں سے ملحق ممالک یعنی روس قزاقستان، کرغیزستان اور تاجکستان شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس، نجی ہوٹلز کے لیے لاگو نئی پالیسی میں کیا ہے؟

سنہ 2000 میں شنگھائی فائیو کے تاجکستان کے شہر دوشنبے میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس تنظیم کے اراکین انسانی حقوق کی بنیاد پر رکن ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ شنگھائی فائیو کے پلیٹ فارم سے مذکورہ رکن ممالک نے اپنے سرحدی مسئلے اور سیکیورٹی خطرات ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے سے حل کرنے کی جانب پیش رفت کی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی توسیع

جون 2001 میں شنگھائی تعاون تنظیم کو باقاعدہ ایک ادارے کی شکل دی گئی اور سب سے پہلے ازبکستان کو اس میں شامل کیا گیا۔ جولائی 2005 میں قزاقستان کے شہر آستانہ میں ہونے والے تنظیم کے اجلاس میں بھارت، پاکستان، ایران اور منگولیا کے نمائندگان نے شرکت کی۔

جولائی 2015 میں روس کے شہر اوفا میں ہونے والے اجلاس میں بھارت اور پاکستان کو تنظیم کا فل رکن بنایا گیا اور جون 2016 میں تاشقند میں ہونے والے اجلاس میں دونوں ملکوں نے تنظیم کے قواعد و ضوابط کی پاسداری سے متعلق مفاہمتی معاہدے پر دستخط کیے، اور پھر جون 2017 میں بھارت اور پاکستان قزاقستان میں تنظیم کے ہونے والے اجلاس میں باقاعدہ طور پر تنظیم کے رکن بن گئے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے موجودہ اراکین

اس وقت شنگھائی تنظیم کے 10 مستقل اراکین ہیں جن میں چین، روس، بھارت، پاکستان، ایران، قزاقستان، تاجکستان، کرغیزستان، ازبکستان اور بیلاروس شامل ہیں۔ آبزرور اسٹیٹس میں منگولیا جبکہ طالبان حکومت کے قیام سے قبل افغانستان بھی شامل تھا۔

تنظیم کے ڈائیلاگ پارٹنرز میں ترکیہ، کمبوڈیا، سری لنکا، آذربائیجان، نیپال، آرمینیا، مصر، قطر، سعودی عرب، کویت، مالدیپ، میانمار، متحدہ عرب امارات اور بحرین شامل ہیں۔

2004 میں شنگھائی تعاون تنظیم نے اقوام متحدہ کے ساتھ تعلقات استوار کیے اور یہ تنظیم اقوام متحدہ میں بطور آبزرور موجود ہے جبکہ اقوام متحدہ کے کئی ذیلی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی خوبیاں

شنگھائی تعاون تنظیم کی سب سے بڑی خوبی اس کی جغرافیائی لوکیشن ہے۔ اس تنظیم کے رکن ممالک یوریشیا، وسط ایشیا، جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشیا تک پھیلے ہوئے ہیں۔

ایس سی او ممالک پوری دنیا کی معیشت کے 25 فیصد حصے کے مالک، جبکہ دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد ان ملکوں میں رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ممالک تیل و گیس سمیت لاتعداد معدنی وسائل سے مالا مال ہیں۔

ایس سی او ایک ملٹی لیٹرل فورم ہے جو دنیا کی مختلف اقوام کو آپس میں بات چیت اور تعاون کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

ایس سی او میں دنیا کے دو اہم ترین ممالک روس اور چین کے ساتھ ساتھ بھارت، پاکستان اور ایران کی شمولیت نے اس تنظیم کی عالمی حیثیت میں اضافہ کردیا ہے۔

ایس سی او پلیٹ فارم سے توانائی کی پیدوار، رسد اور کھپت کے معاہدات کیے جاتے ہیں۔

اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے بین الثقافتی تبادلوں اور لوگوں کو درمیان تعلقات کے فروغ میں مدد ملتی ہے۔

تنظیم کے رکن چین اور روس نے ملکوں کو تجارتی راستوں کے ذریعے جوڑنے کے حوالے سے بہت بڑے منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔

ایس سی او کی کمزوریاں

اس تنظیم کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں ابھی ادارہ جاتی اصلاحات اور اسٹرکچر کو مزید مضبوط اور فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ تنظیم کے تحت فیصلہ سازی کے نظام کو فعال بنانے کے لیے ابھی اداراہ جاتی اصلاحات پر کام جاری ہے۔

رکن ممالک کے متضاد مفادات بھی اس تنظیم کی فعالیت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

ایس سی او کی فعالیت کا زیادہ دارومدار دو بڑے اور مضبوط رکن ممالک روس اور چین پر ہے۔

ایس سی او کے تحت ابھی تک مربوط اور آزاد معیشت کے اہداف کے حصول کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کیا جا سکا۔

ایس سی او ممالک جس خطے میں ہیں اس کو دہشتگردی اور انتہا پسندی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

ایس سی او کو ابھی تک اتنی عالمی پذیرائی نہیں ملی جتنی اسے ملنی چاہیے تھی۔

اتفاق رائے سے فیصلے کرنے کے لیے فیصلہ سازی کا عمل کافی حد تک سست رفتار ہے۔

ایس سی او کے تحت مواقع

ایس سی او کے رکن چین کی جانب سے شروع کیا گیا بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو تمام رکن ممالک کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان سمیت کئی ممالک میں اس انیشیٹو کے تحت بڑے صنعتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں، یہ منصوبہ علاقائی رابطہ کاری کو وسعت دینے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس کی جانب سے شروع کیا گیا نارتھ ساوتھ کوریڈور بھی رکن ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ کو بھی منسلک کرنے کے مواقع رکھتا ہے۔

ایس سی او کے تحت توانائی کے مشترکہ پیداواری منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں، اور قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں پر کام کیا جا سکتا ہے۔

ایس سی او کے تحت سب سے اہم کام جس پر کام کیا بھی جا رہا ہے وہ علاقائی رابطہ کاری ہے، جس میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور لوگوں کے درمیان رابطوں کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔

انسداد دہشت گردی کے حوالے سے یہ پلیٹ فارم بہت موثر انداز میں کام کرسکتا ہے۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کے نظام کے ذریعے یہ پلیٹ فارم علاقائی سیکیورٹی کے لیے بہت اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی سیکیورٹی کے لیے بھی بہت اہم ہے۔

ایس سی او کے رکن ممالک میں ایسے ملک شامل ہیں جو ٹیکنالوجی کے میدان میں کافی آگے ہیں جیسا کہ روس اور چین۔ اس پلیٹ فارم سے ٹیکنالوجی میں آنے والی نئی جدتوں خواہ ان کا تعلق مصنوعی ذہانت سے ہو یا سائبر سکیورٹی سے، ان کا اشتراک کیا جا سکتا ہے۔

ایس سی او اپنے رکن ممالک کی تعداد بڑھا کر اپنے دائرہ اثر میں اضافہ کرسکتا ہے۔

ایس سی او کے تحت تجارت، آزاد معیشت اور علاقائی سرمایہ کاری کے بے تحاشا مواقع موجود ہیں جن کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

ایس سی او کو لاحق خطرات

ایس سی او کو لاحق خطرات کی اگر بات کی جائے تو اس میں سب سے بڑا خطرہ امریکا چین اور روس امریکا باہمی مناقشت ہے جو اس تنظیم کی اثرپذیری کو کم کرسکتی ہے۔

افغانستان کی کشیدہ صورتحال اور مسئلہ کشمیر جیسے مسائل اس تنظیم کے علاقائی سیکیورٹی اہداف کے لیے خطرہ ہیں۔

دہشت گردی اور انتہا پسندی کی وجہ سے اگر علاقائی سالمیت کو خطرات لاحق ہوں گے تو وہ بھی اس تنظیم کی کارکردگی کو متاثر کریں گے۔

ایس سی او کے رکن ممالک موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے خطرات سے دوچار ہیں جو معاشی اور معاشرتی استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔

ایس سی او رکن ممالک میں سائبر سیکیورٹی کے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

عالمی کساد بازاری بھی ایس سی او رکن ممالک کے تعاون اور شرح نمو کو متاثر کر سکتی ہے۔

سفارشات

ایس سی او تنظیم ایک طرح سے دنیا کی آدھی آبادی کی نمائندگی کرتی ہے اور رکن ممالک معاشی ترقی کے بے شمار مواقع موجود ہیں، لیکن اس کے لیے اس تنظیم کو اپنے فیصلہ سازی کے نظام کو مزید فعال اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں کیا ہوگا، یہ پاکستان کے لیے کتنا اہم ہے؟

ساتھ ہی ساتھ اس تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان رابطہ کاری کے نظام کو مزید تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp