سپریم کورٹ نے ڈیم فنڈ کی رقم حکومت کے حوالے کرنے اور ڈیمز کی تعمیر اور عملدرآمد بینچ سے متعلق معاملے پر وفاقی حکومت اور واپڈا سے معاونت طلب کرلی ہے اور کیس کی سماعت جمعہ تک ملتوی کردی ہے۔
سپریم کورٹ میں دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم فنڈز کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال بھی شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈیم فنڈ کی رقم وفاق کو دینے کا معاملہ، آڈیٹر جنرل و دیگر فریقین طلب
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا ڈیم فنڈ پبلک اکاؤنٹ سے مارک اپ کے لیے پرائیویٹ بینکوں میں رکھا جاسکتا ہے، جس پر ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے جواب دیا کہ 37 سالہ ملازمت میں ایسا کبھی نہیں دیکھا، سپریم کورٹ ڈیم فنڈ کی رقم اپنے پاس نہیں رکھ سکتی، ڈیم فنڈ پبلک اکاؤنٹ میں گیا تو مارک اپ نہیں لیا جاسکتا۔
’مارک اپ میں بے قاعدگی نہیں ہوئی‘
ایڈیشنل آڈیٹر جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکمنامے کے تحت وزیراعظم چیف جسٹس ڈیم فنڈ اکاؤنٹ کھولا گیا، رجسٹرار سپریم کورٹ اکاؤنٹ کی دیکھ بھال کرتا تھا، تحقیقات سے علم ہوا کہ ڈیم فنڈ اور مارک اپ میں بے قاعدگی نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اکاؤنٹ کا عنوان نامناسب ہے، میری ہمیشہ پریکٹس رہی ہے کہ آئین و قانون کے بجائے عدالتی فیصلوں کو فوقیت نہیں دینی چاہیے۔
واپڈا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے 2018 سے لیکر ابتک 19 عمل درآمد رپورٹس جمع کرائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نظرثانی نہیں سن رہے، صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ فنڈز رکھ سکتی ہے یا نہیں۔ سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت میں کہا کہ انہیں فنڈز کے اکاؤنٹ کا نام تبدیل ہونے پر کوئی اعتراض نہیں، اخبارات میں آجکل بہت کچھ چھپ رہا ہے، جس پر چیف جسٹس بولے، ’نہ آپ کو عدالت میں اخبار پڑھنے دیں گے اور نہ ہی یہاں اخبار پڑھیں گے، سیاسی باتوں کے بجائے آئین کے تحت معاونت کریں۔‘
یہ بھی پڑھیں: جسٹس ثاقب نثار کے قائم کردہ ڈیم فنڈ میں 6 ارب روپے سے زائد اضافہ کیسے ہوا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ڈیمز بنانے سے متعلق سپریم کورٹ کے حکمنامے کی طرف نہیں جائیں گے۔ سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ڈیمز فنڈز کو حکومت کے استعمال کے بجائے ڈیمز کے لیے ہی استعمال ہونا چاہیے، جب ڈیم فنڈ کیس چل رہا تھا اس وقت آرٹیکل 184 کی شق 3 کے اختیار کا پھیلاؤ پورے ملک تک تھا۔ متاثرین کے وکیل نے کہا کہ تھرڈ پارٹی تنازعات بھی اس کیس سے جڑے ہوئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اس وقت نظرثانی دائر نہیں کی، جب سپریم کورٹ میں عجیب و غریب چیزیں ہورہی ہوتی ہیں اس وقت کوئی اعتراض نہیں کرتا۔
’یہ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے‘
اسٹیٹ بینک کے لیگل ایڈوائزر نے عدالت کو بتایا کہ ڈیم فنڈ میں اس وقت کل 23 ارب روپے سے زائد رقم موجود ہے، فنڈ میں آنے والی رقم 11 ارب روپے جبکہ اس پر مارک اپ 12 ارب روپے سے زائد ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ مارک اپ کون ادا کرتا ہے، جس پر ایڈیشنل آڈیٹر جنرل غفران میمن نے بتایا کہ مارک اپ ٹی بلز کے ذریعے حکومت ادا کرتی ہے، ڈیمز فنڈ کی مکمل تحقیقات کی ہیں، کوئی خردبرد نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ حکومت اپنے آپ کو کیسے اور کیوں مارک اپ دے رہی ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ مارک اپ اس پیسے پر دیا جاتا ہے جو حکومت استعمال کرتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت پر مارک اپ کا بوجھ ڈال کر خوش ہو رہے ہیں کہ 11 ارب روپے بڑھ کر 23 ارب ہوگئے، یہ تو آنکھوں میں دھول جھونکنے والی بات ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ ڈیمز فنڈ میں موجود رقم رکھ سکتی ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈیمز فنڈ کی رقم حکومت کے پبلک اکاؤنٹ کے ذریعے واپڈا کو جانی چاہیے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ حکومت کی مالی حالت ٹھیک نہیں، اگر رقم واپڈا کو دی ہی نہ تو کیا ہوگا؟ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ سپریم کورٹ کس دائرہ اختیار میں ڈیمز تعمیر کی پیشرفت رپورٹ مانگتی رہی؟
وکیل واپڈا سعد رسول نے کہا کہ عدالت کا مقصد صرف ڈیمز کی تعمیر کے حکم پر عملدرآمد یقینی بنانا تھا، جس پر قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ عملدرآمد بینچ کی تشکیل کا آئین میں کوئی ذکر ہے، وکیل واپڈا سعد رسول بولے کہ آئین میں عملدرآمد بینچ کا ذکر نہیں لیکن کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے کام بغیر آئین اور قانون کے ہی ہوجاتے ہیں، سابق اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ عملدرآمد بینچ کا تصور کراچی بدامنی کیس سے شروع ہوا تھا، چیف جسٹس نے جواب دیا کہ میں نے حلف آئین کی بالادستی اور عملدرآمد کا اٹھایا تھا عدالتی فیصلوں کا نہیں۔
واضح رہے کہ کیس کی گزشتہ سماعت پر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے ڈیمز فنڈ میں جمع ہونے والی رقم کا تقاضا کیا تھا، عدالت کو بتایا گیا تھا کہ ڈیمز فنڈ کی مد میں 20 ارب روپے اسٹیٹ بنک کے پاس موجود ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈیمز فنڈ کی رقم سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں رکھنے یا نہ رکھنے سے متعلق معاملہ طے کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
11 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں کیا ہوا تھا؟
ڈیم فنڈ سے متعلق 11 ستمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں اسٹیٹ بنک نے اکاؤنٹ کھولا تھا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ڈیم فنڈ میں کتنے پیسے ہیں۔ واپڈا کے وکیل سعد رسول نے جواب دیا کہ ڈیم فنڈ میں تقریباً 20 ارب روپے موجود ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا تھا کہ یہ کیس شروع کیسے ہوا جس پر واپڈا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے واپڈا کے زیر سماعت مقدمات کے دوران 2018 میں ازخود نوٹس لیا تھا، سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ عمل درآمد بینچ نے 17 سماعتیں کیں۔
چیف جسٹس نے واپڈا کے وکیل سے پوچھا کہ واپڈا کے اور بھی کئی منصوبے ہوں گے، کیا سپریم کورٹ واپڈا کے ہر منصوبے کی نگرانی کرتی ہے۔ واپڈا کے وکیل نے جواب دیا کہ ڈیمز کی تعمیر کے معاملے پر پرائیویٹ فریقین کے درمیان بھی تنازعات تھے جو سپریم کورٹ نے متعلقہ عدالتوں کے بجائے اپنے پاس سماعت کے لیے مقرر کیے۔ واپڈا کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ پرائیویٹ فریقین کے تنازعات متعلقہ عدالتی فورمز پر ہی چلائے جانے چاہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کو فی کس 47 لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا جائے، صدر مملکت کی ہدایت
عدالت نے دوران سماعت کیس کا متعلقہ ریکارڈ طلب کیا اور رقم وفاقی حکومت کو دینے کے معاملے پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کردیا۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ ڈیم فنڈ کی رقم وفاق کو دینے سے متعلق معاونت کی جائے، آڈیٹر جنرل پاکستان خود یا مجاز افسر آئندہ سماعت پر پیش ہوں، عدالت نے 2 سابق اٹارنی جنرلز خالد جاوید اور انور منصور کو بھی آئندہ سماعت پر طلب کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے عدالتی معاون مخدوم علی خان کو بھی آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ڈیمز کی تعمیر اور عملدرآمد بینچ سے متعلق عدالت کی معاونت کی جائے۔ سپریم کورٹ نے مقدمے کے دیگر فریقین کو بھی نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ جولائی 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ملک بھر میں پانی کی قلت پر از خود نوٹس لیتے ہوئے مختلف ڈیمز کی تعمیر کے لیے ڈیم فنڈز کے قیام کا اعلان کیا، اس ضمن میں انہوں نے چیف جسٹس اور پرائم منسٹر ڈیم فنڈ کے نام سے ایک بینک اکاؤنٹ بھی بنایا تھا، جس میں پاکستان سمیت دنیا بھرسے پاکستانیوں نے عطیات جمع کرائے تھے۔ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیمز کی اپنی نگرانی میں تعمیر کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔