سندھ ہائیکورٹ نے عدالتی رپورٹنگ پر پیمرا کی پابندی کے خلاف درخواست کی سماعت کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
عدالتی رپورٹنگ پر پیمرا کی پابندی کے خلاف درخواست کی سندھ ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل معیز جعفری نے دلائل دیے کہ پیمرا نے عدالتی حکم کی غلط تشریح کی ہے، پیمرا کا فیصلہ غیرآئینی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے پیمرا نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد روک دیا، صحافیوں کو کورٹ رپورٹنگ کی اجازت
پیمرا کے وکیل ایمل کانسی نے اپنے دلائل میں کہا کہ پیمرا کی 2 ہدایات کو چیلنج کیا گیا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سماعت کے دوران عدالت کے ریمارکس اگر رپورٹ ہوتے ہیں تو کیا غلط ہے، جس پر وکیل پیمرا نے جواب دیا کہ عدالتی پیچیدگیاں عام آدمی کو سمجھ نہیں آتیں، عدالتی ریمارکس اور قانونی اصلاحات صحافیوں کے لیے بھی سمجھنا ممکن نہیں۔
’عدالتی ریمارکس ٹی وہ پر چلنے سے بے چینی پھیلتی ہے‘
چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو عدالتی آرڈر سمجھنا بھی عام آدمی کے لیے مشکل ہی ہوگا۔ پیمرا کے وکیل نے دلائل پیش کیے کہ ٹی وی پرعدالت کے ریمارکس چلتے ہیں کہ عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ صبح سے ہم نے 3 دفعہ برہمی کا اظہار کیا ہے، عدالت کے ریمارکس چلنے میں کیا خرابی ہے۔ وکیل پیمرا بولے کہ اس سے معاشرے میں بے چینی پھیلتی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ خبر نہیں چلے گی تو بے چینی نہیں پھیلے گی۔
یہ بھی پڑھیں: عدالتی رپورٹنگ پر پیمرا کی پابندی؛ لاہور ہائیکورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کردیے
عدالت نے استفسار کیا کہ عدالتی رپورٹنگ پر پیمرا کی پابندی سے متعلق ہمارا سوال ہے آپ کیوں نہیں چاہتے کہ عدالت کے سوال نشر نہ ہوں، کیا اس سے متعلق کوئی قوانین بنائے گئے ہیں۔ پیمرا کے وکیل نے جوا دیا کہ پیمرا کا کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے، جو سماعت براہ راست دکھائی جاتی ہے اسے رپورٹ کیا جاسکتا ہے۔
عدالت نے سوال کیا کہ جو سماعت براہ راست دکھائی جارہی ہے، اسے دکھانے کے لیے اجازت کی کیا ضرورت ہے، جو سماعت براہ راست نہیں اس کے سوال و جواب آن ایئر ہونے میں کیا مسئلہ ہے، آپ سماعت کے دوران کیے جانے والے سوال بتانے پر کسی کا منہ بند نہیں کرسکتے۔ سندھ ہائیکورٹ نے مزید ریمارکس دیے کہ یہ سماعت بھی اوپن کورٹ میں ہورہی ہے، جو سوال و جواب ہورہے ہیں وہ سب ہی سن رہے ہیں، تاثر یہ مل رہا ہے کہ جو براہ راست ہے وہ سن لیں، جو براہ راست نہیں وہ سننے نہیں دیں گے۔
’اسے ریگولیشن نہیں بلکہ منہ بند کرنا کہتے ہیں‘
پیمرا کے وکیل نے کہا کہ اگر عدالت براہ راست سماعت کے لیے خود بولتی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے، لائیو سماعت سے تمام تفصیلات عوام کے سامنے ہوتی ہیں، ٹکرز میں سنسنی پھیلائی جاتی ہے۔ وکیل کے ان دلائل پر عدالت نے سوال کیا کہ آپ کی ہدایات میں سنسنی پھیلانے کی بات کہاں ہے۔ عدالت نے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسے ریگولیشن نہیں بلکہ منہ بند کرنا کہتے ہیں، آپ نے کہا خبردار اگر کورٹ میں کیا گیا سوال آن ایئر کیا، یہ ریگولیشن نہیں آمریت ہے، آپ کو کیا پتا کہ عوام کو کیا سننا ہے اور کیا نہیں، اگر عدالت سوال کررہی ہے تو عوام کے لیے جاننا ان کا حق ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: پیمرا کا عدالتی رپورٹنگ پر پابندی کا نوٹیفکیشن چیلنج کردیا گیا
پیمرا کے وکیل نے کہا کہ میڈیا سوال و جواب کے بجائے تحریری آرڈر چلائے، اگر کوئی سماعت سن رہا ہے تو سیاق و سباق سمجھ سکتا ہے، باہر موجود شخص تو صرف ٹکر دیکھ رہا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ٹکر چلے گا اور کیا ہیڈ لائن ہوگی، یہ ہدایت ریگولیشن کیسے بن سکتا ہے، جس پر پیمرا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پیمرا کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
’رپورٹر عدالتی کارروائیوں سے ناواقف ہوتے ہیں‘
دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رپورٹر عدالتی کارروائیوں اور اصلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں، سماعت کے بعد دوڑ لگی ہوتی ہے کہ سب سے پہلے خبر دینی ہے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ لائیو ٹرانسمیشن میں بھی عام آدمی کچھ اور سمجھ سکتا ہے۔ وکیل معیز جعفری نے دلائل دیے کہ پیمرا کونسل آف کمپلینٹ کے بغیر فیصلہ کیسے کرسکتا ہے، چیئرمین پیمرا بورڈ کی مشاورت کے بغیر ازخود فیصلہ نہیں کرسکتے۔ بعد ازاں، عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: عدالتی فیصلے کی میڈیا پر غلط تشریح کی جا رہی ہے، سپریم کورٹ نے وضاحت جاری کردی
خیال رہے کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے کورٹ رپورٹنگ پر پابندی کا نوٹیفیکیشن 27 مئی کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے درخواست کی فوری سماعت کی استدعا منظور کی تھی۔ درخواست میں پیمرا، وزارت اطلاعات و نشریات اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ درخواست شاہد حسین ،امین انور،اصغر عمر،عرفان الحق اور شوکت کورائی کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔
پیمرا نے 21 مئی کو زیر سماعت عدالتی مقدمات سے متعلق خبر یا ٹکرز چلانے پر پابندی عائد کردی تھی۔ پیمرا نوٹیفیکیشن کے خلاف 23 مئی کو لاہور لائیکورٹ جبکہ 24 مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی درخواستیں جمع کرائی گئی تھیں۔