اپنی سگی بہن کو وراثت سے محروم کرنے والے شخص کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنا مہنگا پڑگیا۔
درخواست گزار کی جانب سے سپریم کورٹ کے سینئیر جج قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں زیر سماعت درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ اس کے والد نے اسے 21 اپریل 1993 کو لودھراں میں مذکورہ اراضی تحفے کے طور پر دے دی تھی جس پر اب اس کی والدہ اور بہن کا کوئی حق نہیں۔
سپریم کورٹ نے بہن اور والدہ کو وراثت میں حصہ دینے کی بجائے مقدمہ بازی کرنے پر درخواست گزار کو پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔ چار صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ بھائی جرمانہ کی رقم اپنی بہن کے لواحقین کو ادا کرے گا اور ادائیگی میں ناکامی کی صورت میں ریونیو ڈیپارٹمنٹ جرمانہ بھائی کی جائداد سے وصول کرے گا۔
فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ ایسی جھوٹی اپیل سپریم کورٹ میں آنی ہی نہیں چا ہیے تھی۔ عدالت نے وکلا کو بھی ہدایت کی کہ وہ نا انصافی کا آلہ کار نہ بنیں اور اپنے موکلین کو بہتر مشورہ دیں۔
عدالت نے کہا کہ درخواست گزار نے نہ تو گفٹ ڈیڈ اور نہ اس کی مصدقہ نقل فراہم کی اور کسی قانونی دستاویز کے بغیر اپنی والدہ اور بہن کی وراثتی اراضی ہتھیانے کی کوشش کی۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ درخواست گزارنے اپنے خاندان کے خاتون ورثا کو محروم کرنے کے لیے فراڈ کیا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ بہت سی خواتین کے پاس اپنے حق کے حصول کی گنجائش نہیں ہوتی اور مرد بعض اوقات مقدمے میں جا کر اراضی کو سالوں اپنے قبضے میں رکھ کر فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ محمد رفیق بنام غلام زہراں مائی لودھراں اراضی سے متعلق مقدمہ میں دیا۔