2 سال میں انگلینڈ کا پاکستان میں یہ چوتھا ٹیسٹ میچ تھا اور چاروں میں ہی مہمان ٹیم نے میزبان کی ایک نہ چلنے دی۔ 2022 میں ایک بھرم یہ رہ گیا تھا کہ قومی ٹیم کو اننگز سے شکست نہیں ہوئی تھی مگر اس بار ملتان ٹیسٹ میں یہ کسر بھی پوری ہوگئی اور انگلینڈ نے پاکستان کو اننگز اور 47 رنز سے عبرتناک شکست دے دی۔
کرکٹ کا کوئی بھی فارمیٹ ہو، ہوم سیریز میں ہمیشہ ہی میزبان ٹیم کو مدد ملتی رہی ہے، مگر قومی ٹیم نے تو حد ہی کردی، گھر میں کھیلے گئے گزشتہ 8 میچوں میں کسی ایک میں بھی کامیابی نہیں مل سکی ہے، بلکہ بنگلہ دیش نے بھی کلین سوئپ کردیا جس نے اس سے پہلے کبھی پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ میں شکست نہیں دی تھی۔
گزشتہ 2 سالوں میں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بدل گئے، کپتان بدل گئے، سلیکٹرز بدل گئے، کھلاڑی بدل گئے بس نہ بدلا تو نتیجہ نہ بدلا۔
رسوائی کا عالم یہ ہے کہ جو کام صدیوں میں نہیں ہوئے وہ اس بار ہوگئے۔ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں کبھی کوئی کپتان اپنے ابتدائی 6 میچ نہیں ہارا، مگر شان مسعود نے یہ کام بھی کرلیا۔
ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی ٹیم نے پہلی اننگز میں 500 سے زائد رنز بنائے ہوں اور اسے اننگز کی شکست ہوجائے، مگر اس بار یہ بھی ہوگیا۔
پہلی مرتبہ کسی ٹیم نے پاکستان کے خلاف ٹیسٹ اننگز میں 800 سے زائد رنز بنائے ہیں، اس سے پہلے ویسٹ انڈیز نے 1958 میں 790 رنز بنائے تھے۔
ویسے انگلینڈ کی ٹیم نے پاکستانی بلے بازوں کو کچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیا اور ٹیم جلدی ڈیکلیئر کردی، اگر کھلاڑیوں کو مزید وقت دے دیا جاتا تو شاید ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی مرتبہ کسی اننگز میں 1000 رنز بھی بن جاتے۔
یعنی انگلینڈ والوں نے ہمیں صرف جوتے نہیں مارے، بلکہ بھگو بھگو کر مارے ہیں۔ کھلاڑی جو کرتے رہے وہ تو ہم دیکھ ہی رہے تھے مگر ملتان وکٹ کو لیکر جتنی تنقید کا سامنا ہمیں ہوا ہے اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔
ہم اس قدر بزدل ہوچکے ہیں اور شکست سے اتنا ڈر لگنے لگا ہے کہ کسی ایسی وکٹ کا سوچ بھی نہیں سکتے جس میں میچ نتیجہ خیز ثابت ہوسکے مگر ہمارے کھلاڑی بورڈ کی ہر ایسی کوشش اور خواہش کو اپنی نااہلی سے ناکام کردیتے ہیں۔
یہاں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ہوم سیریز کا فائدہ اسی صورت حاصل کیا جاسکتا ہے کہ میزبان ملک اپنی ٹیم کے مضبوط پہلو دیکھتے ہوئے وکٹ تیار کرے۔ جیسے بھارت اسپن وکٹوں پر کام کرتا ہے کہ اس کے پاس یہ شعبہ سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا، انگلینڈ اور جنوبی افریقہ ہمیشہ اپنی ٹیم کو دیکھتے ہوئے تیز اور باؤنسی وکٹوں پر توجہ دیتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم کس حوالے سے کام کریں؟ ہمارے تو نہ بلے باز چلتے ہیں اور نہ گیند باز کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ابرار احمد پر کچھ مان تھا مگر انہوں نے پہلی اننگز میں 35 اوورز تو 4.97 کی اوسط سے 174 رنز دے دیے۔
ہر بار کی طرح اس شکست کے بعد بھی پی سی بی حرکت میں آگیا ہے، سلیکشن کمیٹی فوری طور پر تبدیل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں جس کا اعلان شاید آج شام ہی ہوجائے، ساتھ کپتان کی تبدیلی کے امکانات بھی روشن ہوگئے ہیں۔ محمد رضوان اور سعود شکیل کو مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ہم شاید واحد ملک ہیں جو سیریز کے دوران اس طرح کے بڑے اور بھونڈے فیصلے کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
ٹی20 ورلڈ کپ کے دوران بابر اعظم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ ذکا اشرف نے کس طرح کپتان سے متعلق بے وقت بلکہ بے وقعت بیانات دے کر مورال ڈاؤن کرنے کی کوشش کی تھی، اس بار بھی بالکل ایسا ہی ہورہا ہے۔ ذلت اور رسوائی تو لکھی جاچکی ہے، ان حالات میں کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ مزید 2 ٹیسٹ اور رک جائیں اور پھر جو چاہے کرلیں؟
ویسے بھی پی سی بی چیف محسن نقوی کے لیے اس وقت بطور وزیر داخلہ اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینا زیادہ ضروری ہے۔ ملک کے حالات بہتر نہیں ہیں اور ان حالات میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہورہا ہے، بہتر ہے کہ محسن نقوی صاحب ان حالات میں ٹیم کو کچھ دنوں کے لیے اس کے حال پر چھوڑ دیں، ایسا کرنے کی صورت میں پھر امکان ہے کہ شاید کھیل میں بہتری آجائے۔