مشہور زمانہ مکالمہ ہے کہ ” جو ڈر گیا سمجھو مرگیا “۔ یہ ڈر اور خوف ہی تو تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کےلیے ملتان کی ایک ایسی پچ تیار کی گئی جو بلے بازوں کے لیے جنت سے کم نہ تھی۔ تین تین فاسٹ بولرز کے ہوتے ہوئے شان مسعود اینڈ کمپنی کو یہ خوف بے چین کررہا تھا کہ اگر ہمارے بولرز نہ چلے تو کیا ہوگا اور یہی سوچ کر اُس پچ کا میدان سجایا جس میں ناکامی کی دلدل میں پھنسے ہوئے عبداللہ شفیق اور کپتان شان مسعود تک بھی سنچریاں کرگئے۔
پہلی اننگ میں 556 رنز بنانے کے بعد پاکستانی ٹیم اور اس کے کرتا دھرتا بڑے مسرور تھے کہ وہ اپنی ناکامی کو ” بیٹنگ پیراڈائز پچ ” کے ذریعے پوشیدہ رکھنےمیں کامیاب ہوئے لیکن مہمان انگلش ٹیم نے پہلے پاکستان کو بیٹنگ میں” سرپرائز” دیا اور پھر بولنگ میں۔ پاکستانی ٹیم بس منہ ہی تکتی رہ گئی۔ اندازہ لگائیں کہ پاکستانی ٹیم نے 149 اوورز کھیل کر 556 رنز اسکور بورڈ پر لگائے تھے اور انگلش ٹیم نے پاکستان سےصرف ایک اوور زیادہ کھیل کر 823 رنز کا ہمالیہ کھڑا کیا۔ یہ اس جانب اشارہ بھی ہے کہ ماڈرن کرکٹ کو انگلش کرکٹ ٹیم نے کس انداز میں اختیار کیا ہے۔ کیا یہ کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتاؤں کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستانی ٹیم پہلی اننگ میں 500 سے زیادہ رنز کرنے کے باوجود ہاری اور یہ نیا عالمی ریکارڈ بھی بن گیا ہے۔ کیا یہ کم حیران کن نہیں کہ جس پچ پر انگلش کھلاڑی دھڑلے سے رنز بنانے میں لگے ہوئے تھے اُسی پچ پر پاکستانی بلے بازوں کے لیے ایک ایک رن کا حصول کسی شہزادی کی فرمائش بن گیا۔ یہ بھی پاکستانی ٹیم کا ہی وتیرہ یا کمال ہے کہ اگر وہ فیلڈنگ میں ہوتے ہیں تو پچ بیٹنگ کی لگتی ہے اورجب پاکستان بیٹنگ کرے تو احساس ہوتا ہے کہ بولرز کے لیے ساز گار ہے۔ ایسا ہی کچھ بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بھی لگا اور اب ملتان ٹیسٹ میں بھی۔
لگ یہی رہا ہے موثر اور بہترین حکمت عملی اس پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بس کی بات نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بولنگ کے” طرم خان ” تصور کیے جانے والے شاہین شاہ، نسیم شاہ اور عامر جمال مجموعی طور پر 451 دے کر صرف 3 ہی شکار کر پائے۔ یہ ان کی کاٹ دار، برق رفتار اور سوئنگ پر سوالیہ نشان ہی ہے۔ یہی نہیں یہ دوسرا موقع ہے کہ پاکستان کے 6 بولرز نے بولنگ کراتے ہوئے رنز دینےمیں اس قدر فیاضی اور سخاوت دکھائی کہ ہر ایک نے سنچری اسکور کی۔ یہ تیز رفتار بولرز کی قابلیت اور اہلیت کی چغلی کھانے کےلیے کافی ہے کہ انگلش کرکٹ ٹیم کا ایک بلے باز ٹرپل سنچری کے قریب پہنچے اور ایک نے اس سنگ میل کو عبور بھی کیا۔
دوسری اننگ کا کمال
ملتان ٹیسٹ میں پاکستانی بلے بازوں نے ذہن بنا لیا تھا کہ دوسری اننگ میں بھی پچ پہلی اننگ کی طرح ان کے ساتھ برتاؤ کرے گی لیکن پچ کا رویہ ہی نہیں انگلش بالرز کا جارحانہ انداز بھی پاکستانی بلے بازوں کے ہوش اڑا گیا۔ کیون پیٹرسن جو ابتدا سے ہی ملتان کی پچ پر کڑی تنقید کررہے تھے ان کے لبوں پر بھی اس وقت تالے لگ گئے جب ان کی ہوم ٹیم بالرز نے پاکستانی بلے بازوں کا جلوس نکالا۔ شکست سے یہ بات تو طے ہوگئی کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے دلی( فتح) دور ہی ہے اور یہ دلی گزشتہ کئی برسوں سے دور سے دور ہوتی چلی جارہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی کرکٹ ٹیم کا بار بار کپتان نہیں بلکہ اب کھلاڑی بدلنے کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ کنگ، سپر یا بوم بوم سوشل میڈیا پر تو بہت ہی کامیاب ہیں لیکن حقیقت میں کہانی کچھ اور ہے۔ یہ شکست صرف پاکستانی کرکٹ ٹیم کی نہیں بلکہ سلیکٹرز، بورڈ اور خود کپتان شان مسعود کے لیے اب پریشان کن بنتی جارہی ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں جس بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم سے حال ہی میں 2 ٹیسٹ میچز میں شکست کا صدمہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے برداشت کیا۔ اُسی ٹیم کو بھارتی کرکٹ ٹیم نےصرف 2 دن میں ہار سے دوچار کرکے یہ باور کرایا کہ کرکٹ کیسے کھیلی جاتی ہے۔
بلے باز کب تک ناکام رہیں گے؟
عبداللہ شفیق یا شان مسعود کی سنچریوں پر ڈھول پیٹنے والے تجزیہ کاروں کو سمجھنا چاہیےکہ ایک یا دو اننگز میں منہ کا ذائقہ بدلنے کے بعد رنز کردینا کوئی بہت بڑی کامیابی نہیں۔ جب تک بلےبازوں میں مستقل مزاجی نہیں ہوگی ممکن ہی نہیں فتح پاکستان کا مقدر بنے۔ چار چار میچز میں ناکام ہونے کےبعد کسی ایک ادھ اننگ میں اسکور کرنا کسی بھی صورت ان کھلاڑیوں کےمعیار کو بہتر نہیں کرسکتا۔ عبداللہ شفیق ہوں یا شان مسعود یا پھر صائم ایوب یا پھر سعود شکیل یہ وہ بلے باز ہیں جن کےبارےمیں یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا “چلیں تو چاند تک نہ چلیں تو شام تک” مگر ہمارے عظیم بلےباز فخرِ پاکستان بابراعظم سے ہر ایک کو ہر بار توقع ہوتی ہے لیکن کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں کہ بلے بازوں کےلیے جنت تصور کی جانے والی ملتانی پچ پربابراعظم پہلی اننگ میں 30 اور پھر دوسری اننگ میں 5 رنز بنا کر ہمت ہاربیٹھے۔ اگر بابراعظم خود کو واقعی کوہلی کےہم پلہ بلے باز تصور کرتےہیں تو کوئی ایک ایسی اننگ بھی کھیلنی ہوگی جو کوہلی کی پہچان ہے۔ کیا یہ تشویش ناک امر نہیں کہ کنگ بابراعظم 18 اننگز سےنصف سنچری تک نہیں پہنچ پائے۔ کوئی نہ اسکور کرے کم از کم بابر اعظم تو اپنے نام کی لاج رکھ لیں۔
شان مسعود بائے بائے ٹاٹا ؟
یقینی طور پر یہ شان مسعود کی بطور کپتان آخری ہی ٹیسٹ سیریز ہوگی لیکن یہاں سوال یہ بھی ہےکہ ان کے متبادل کے طور پر کس کا انتخاب ہوگا؟ اس ضمن میں سعود شکیل مضبوط امیدوار بن کر ابھرے ہیں لیکن کرکٹ تجزیہ کاروں کے مطابق کپتان کے بجائے ” کچھ مہان ” کھلاڑیوں کی چھٹی کرنا ضروری ہوگیا جو ٹیم پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ اور پھر سب سے بڑھ کر ایک نئی سوچ پروان چڑھانی ہوگی کہ ڈر یا خوف زدہ ہو کر نہیں بلکہ جارحانہ انداز میں ماڈرن کرکٹ کھیلنی ہوگی۔ اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ٹیم منجیمنٹ اور سلیکشن پر بھی تلوار چلانی ہوگی جن کا ” مائنڈ سیٹ ” جارحانہ نہیں بلکہ دفاعی ہے۔ اگر بولرز اور بلے باز مسلسل ناکام ہورہے ہیں تو پچ کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اس پہلو پر بھی غور کرنا ہوگا کہ ذہنی طور پر کھلاڑی ہار کے خوف کا شکار ہیں۔ یقین جانیں کہ جس دن اس خوف سے نجات حاصل کرلی تو کھیل کا نتیجہ پاکستان کے حق میں آہی جائے گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔