حال ہی میں ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنماؤں کے جانب سے اچانک سخت بیانات سامنے آئے جس سے سیاسی پنڈتوں کی جانب سے مختلف اندازے لگائے گئے اور ایک اندازہ یہ بھی تھا کہ شاید ایم کیو ایم آئینی ترمیم میں حکومت کا ساتھ نہ دے۔
یہ بھی پڑھیں:مجوزہ آئینی ترمیم: معاملات کو حتمی شکل دی جانے لگی، پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس کل طلب
اس حوالے سے ایم کیو ایم کا اصل مؤقف کیا ہے یا ایم کیو ایم ان ترامیم میں حکومت کا ساتھ شرائط کی بنیاد پر دے گی یا ایم کیو ایم اس ترمیم کے حق میں ہے یا نہیں؟
کوٹہ سسٹم کے حوالے سے بل
اس حوالے سے ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر رہنما اور ممبر قومی اسمبلی حسان صابر نے وی نیوز کو بتایا کہ دو باتیں ہیں جن کو جوڑا جا رہا ہے اور وہ دنوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ پہلی یہ کہ کوٹہ سسٹم کے حوالے سے عالیہ کامران کی جانب سے پیش کردہ بل تھا جس کی ایم کیو ایم نے شدید مخالفت کی اور دو ٹوک مؤقف اپنایا کہ اگر یہ بل پاس ہوا تو ایم کیو ایم حکومت کا حصہ نہیں رہے گی۔
حکومت کے سامنے 2 سفارشات رکھی ہیں
حسان صابر کا کہنا تھا کہ دوسرا معاملہ آئینی ترمیم کا ہے اور یہ ترمیم حکومت وقت کی جانب سے کی جا رہی اور واضح رہے کہ ایم کیو ایم اس وقت حکومت کا حصہ ہے اور اس ترمیم میں ہم حکومت کے ساتھ ہیں۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے حکومت کے سامنے 2 سفارشات رکھی ہیں ایک ہے آرٹیکل 148 کی اور دوسری ہے بلدیاتی خود مختاری کی۔
یہ بھی پڑھیں:بلاول بھٹو کی نواز شریف سے ملاقات، مجوزہ آئینی ترمیم پر تبادلہ خیال
ہم حکومت کے ساتھ رہیں گے
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ایم کیو ایم کی سفارشات نہ ماننے کی صورت میں ایم کیو ایم ترمیم کا حصہ نہیں بنے گی؟ حسان صابر کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کے ساتھ رہیں گے کیوں کہ ہم حکومت کا حصہ ہیں۔
ترمیم مخالفین کو مسئلہ کیا ہے؟
حسان صابر کہتے ہیں کہ جو ترمیم کے حوالے سے مخالفت کرتے دکھائی دے رہے ہیں ان کو اس سے مسلئہ ہے کیا؟ اعداد وشمار دیکھنے چاہییں۔ 58000 مقدمات اس وقت زیر التوا ہیں اور مزید نئے مقدمات کا بوجھ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آئینی ترمیم، فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کے تحفظات دور کردیے، مشترکہ مسودہ تیار کرنے پر اتفاق
ان کا کہنا تھا کہ کبھی کسی کے جیل میں مرنے کے بعد فیصلہ آتا ہے کہ وہ بے گناہ ہے، جو مر چکا اس کی پراپرٹی کا فیصلہ آرہا ہے۔ تو جو موجودہ عدالتیں ہیں وہ تو اپنا کام کریں گی لیکن سیاسی مقدمات بہت کم ہیں اس کے علاوہ بہت سے مقدمات ہیں جن کو فوری ختم کرنے کی ضرورت ہے۔