نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ نہ پاکستان نے بھارت کو دوطرفہ تعلقات کے ضمن میں بات چیت کا کوئی پیغام دیا ہے اور نہ ہی بھارت نے ایسا کچھ کہا ہے، بھارتی وفد کا ایجنڈا بھی شنگھائی تعاون کونسل کے اغراض ومقاصد کے گرد ہی گھومے گا۔
24نیوز کے پروگرام ’نسیم زہرہ ایٹ پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ کا کا دورہ پاکستان دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے نہیں بلکہ ایک کثیرالجہتی ایونٹ میں شرکت کی غرض سے ہوگا، جس میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان دو طرفہ تعلقات پر کوئی بات چیت متوقع نہیں۔
یہ بھی پڑھیں:شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کل سے شروع ہوگا، چینی وزیر اعظم آج اسلام آباد پہنچیں گے
اسحاق ڈار کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا دورہ ایک کثیر الجیہتی فورم یعنی شنگھائی تعاون کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے ہے، جس میں ایس سی او ایجنڈا ہی موضوع بحث ہوگا یعنی ایس ای او کے چارٹر کے حوالے سے سماجی، ثقافتی، اقتصادی، اور انسانی ہمدردی سمیت سیکیورٹی امور جو اس کے دائرہ کار میں شامل ہیں۔
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے مطابق مذکورہ اجلاس میں ایس سی او کے اگلے بجٹ کی منظوری بھی ہوسکتی ہے، ان کے مطابق اگر یہ اجلاس کسی اور ملک کی میزبانی میں بھی منعقد ہوتا تو اس کے انعقاد کا یہی انداز ہوتا، جس کی پاکستان نے بھی پیروی کی ہے۔ ’بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک رکن کی حیثیت سے شریک ہوں گے اور پھر اپنے وطن واپس چلے جائیں گے۔‘
مزید پڑھیں:شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس: روس اور چین سمیت بھارتی وفد اسلام آباد پہنچ گیا
دوطرفہ تعلقات کے ضمن میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ میزبان ملک ہونے کے ناطے پاکستان کسی ملک سے دوطرفہ امور پر علیحدہ سے رابطہ نہیں کرسکتا تھا، تاہم شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر پاکستان چین اور روس کی درخواست پر دونوں ممالک کے وفود سے دو طرفہ امور سمیت دیگر معاملات پر بھی گفت وشنید کرے گا۔
’ہمارا دوطرفہ اشتراک جن ممالک کے ساتھ طے ہے ان میں چین اور روس سمیت دو تین اور ممالک شامل ہیں، جنہوں نے دوطرفہ امور پر بات چیت کی درخواست کی ہے، جو ہوں گی، باقی میزبان رکن ملک کی حیثیت سے ہم نے کسی سے یہ درخواست نہیں کی ہے۔‘
شنگھائی تعاون تنظیم میں افغانستان کی شرکت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 2020 کے بعد سے افغانستان کو ایس سی او کے کسی اجلاس میں نہیں بلایا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بطور میزبان ملک اس حوالے سے وہی پالیسی اپنائی ہے جس پر تنظیم کے سیکریٹیریٹ سے اتفاق رائے پایا گیا۔