’جس کا کام اسی کو ساجھے‘

اتوار 9 اپریل 2023
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں ’جس کا کام اسی کو ساجھے‘ لیکن پچپن برس کی عمر میں پہنچ کر بھی اس کائناتی حقیقت کی روشنی میں شب و روز گزارنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ بحیثیت مجموعی ہم پوری قوم کا شیوہ بن چکا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا وطن دنیا کی واحد نظریاتی ریاست ہے۔

ہم اسی خوش خیالی میں مست رہتے ہیں کہ یہ مملکت اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے۔ چونکہ یہ ملک رمضان المبارک کی 27ویں شب میں قائم ہوا، اس لیے اب ہم چاہے سفید کریں یا سیاہ، ہماری ریاست کو دنیا کی عظیم ریاست بننا ہی ہے اور دنیا کی قیادت کے بلند مقام پر متمکن ہونا ہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم ایک ایسا کام کرتے ہیں جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا، یہ کام ہے: ’اپنے کام سے کام نہ رکھنا بلکہ دوسروں کے چھابے میں ہاتھ مارنا‘۔ اس اعتبار سے ہم دنیا بھر میں ایک ’منفرد‘ قوم کے طور پر اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔

مثلاً اسلام آباد سے مری کی طرف جانے والی شاہراہ کے کنارے، جنگل میں واقع ایک ڈھابے والا اچھی چائے بنانے کے بجائے لچھے دار گفتگو خوب مزے لے کر کرتا ہے اور ایک لیکچر کی صورت بتاتا ہے کہ وقت کا حکمران کیسے بہتر حکمرانی کرسکتا ہے۔ ملکی معیشت میں کیا خرابیاں ہیں اور وہ کیسے درست ہوسکتی ہیں؟ عین اسی وقت اُس ڈھابے والے کی بنائی ہوئی چائے سے بھرے کپ میزوں پر دھرے ہوتے ہیں اور ان کا آرڈر دینے والے سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ایسی بدمزہ چائے زندگی میں پہلی بار پینے کو ملی ہے، اب کیا کریں؟ لبالب بھرے کپ اسی طرح چھوڑ کر اٹھ جائیں یا پھر مروت کے مارے کچھ دیر بیٹھے رہیں۔

ہم اپنے وطن سے ذرا باہر نکلیں اور افریقہ اور پھر وہاں سے امریکا تک چلے جائیں، اپنے ہم وطن ڈھابے والے جیسا کہیں کوئی دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ سب اپنے کام، اپنے ہی شعبے میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کرتے دکھائی دیں گے، کوئی کسی دوسرے کے چھابے میں ہاتھ مارنے کی کوشش نہیں کرتا۔ جب اپنا چھابہ موجود ہے تو کوئی دوسرے کے چھابے میں ہاتھ کیوں مارے؟

آپ ذرا اپنے دائیں، بائیں اور آگے، پیچھے کسی بھی فرد کو سوچ لیں، کیا وہ بیک وقت زندگی کے ہر شعبے کا ’بہترین تجزیہ کار‘ بننے میں کوشاں نہیں ہوتا؟ وہ سیاست پر سب سے زیادہ گفتگو کرتا ہے، معیشت کے بارے میں بھی، اس کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ خوب جانتا ہے، معیشت کیوں بگڑی؟ سدھار کیسے آئے گا اور بڑھوتری کیسے ہوگی؟ ہاں! اس موقع پر اس ’ماہر معیشت‘ سے پوچھنا مت بھولیے گا کہ صاحب! آپ کی جیب یعنی ذاتی معیشت کا کیا حال ہے؟ وہ نہایت دردناک انداز میں اپنے ذاتی کاروبار کا احوال یوں بیان کرے گا کہ آپ اسے کسی خیراتی ادارے سے امداد لے کر، دینے کا سوچنا شروع کردیں گے۔

چلیں! ہم آپ کے آگے، پیچھے اور دائیں، بائیں رہنے والوں کی مزید بات نہیں کرتے۔ وطنِ عزیز کے انتہائی ’مقدس‘ اداروں کی بات کرلیتے ہیں۔ان کی بات کرنے سے پہلے ہم ایک معروف مقولہ یاد کرتے ہیں کہ ’تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا جاتا‘۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم دوسروں کو رسوا ہوتے دیکھ کر، خود بھی رسوا ہونے کے لیے پیش قدمی کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ہر مُنّی ڈارلنگ کے لیے بدنام ہورہی ہے اور نتائج و عواقب سے باخبر ہوکر بھی بدنام ہو رہی ہے۔

دفاع کے شعبے سے متعلق لوگوں نے جب اپنا فرض منصبی چھوڑ کر دوسروں کے دائرہ کار میں قدم رکھا، انہی کے بارے میں فکرو تدبر کیا، منصوبہ بندیاں کیں، حکمتِ عملی وضع کی، کبھی ایک پراڈکٹ لانچ کی تو کبھی دوسری۔ ایک بزنس میں قدم رکھا، وہاں فتح کے پرچم لہرائے، پھر دوسرے، تیسرے اور چوتھے کاروباری شعبہ کی طرف توجہ کی اور اپنے جھنڈے ہر طرف گاڑتے ہی چلے گئے۔ اگر کچھ خاص نہیں سوچا تو اپنے بنیادی شعبے کا نہیں سوچا جس کے لیے انہیں کسی بھی دوسرے سرکاری ملازم سے زیادہ تنخواہ اور مراعات دی جاتی ہیں۔ اس سب کچھ کے بعد، وہ کس قدر ذی وقار ہوئے، اپنے آگے، پیچھے اور دائیں، بائیں والوں سے بات کرکے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کا ادراک ہمارے ’باوقار‘ لوگوں کو بخوبی ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اب اپنے کام سے کام رکھیں گے، سیاست کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں گے۔

اب اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر، تعمیرشدہ ایک پُرشکوہ سفید عمارت میں بیٹھے چند ’بزرگانِ عالی مقام‘ وہ سب کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ایک دوسرے ادارے کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اس روش کے نتائج و عواقب کیا ہیں اور مزید کیا ہوسکتے ہیں؟ ایک، کسی پارلیمینٹیرین نے کہا کہ جو کام سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں آتے ہیں، اب وہ ہم کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس روش کا دوسرا نتیجہ کچھ یوں نکلا، ’وی نیوز ڈاٹ پی کے‘ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد شرح کے اعتبار سے بھارتی سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات سے کہیں زیادہ ہے، حالانکہ بھارت کی آبادی پاکستان کی آبادی کی نسبت 700 گنا زیادہ ہے۔ یہاں ججز ملزم کی جیل میں موت کے 19 برس بعد فیصلہ دیتے ہیں کہ وہ ’بے گناہ‘ ہے۔ موت کے گھاٹ اترنے کے برسوں بعد ’بزرگانِ عالی مقام‘ سے بے گناہی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے والے ملزم ایک، دو نہیں بے شمار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ 2022 کی 140 ممالک کی فہرست میں پاکستان 129ویں نمبر پر ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان سے کچھ ہی فاصلے پر مارگلہ کا پہاڑی جنگل شروع ہوتا ہے۔ ان پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف کئی راستے چڑھتے ہیں۔ ایک راستہ ’ٹریل فائیو‘ بھی کہلاتا ہے۔ اس راستے کے شروع میں، گھنے جنگل کے اندر ایک چلہ گاہ ہے۔ کہا جاتا ہے معروف بزرگ حضرت امام بری رحمۃ اللہ علیہ یہاں چلہ کاٹا کرتے تھے۔ یہ چلہ گاہ برگد کے چند درختوں کے سائے تلے واقع ہے۔ چند روز پہلے ادھر سے گزر ہوا تو ایک برگد کے نیچے بیٹھا ایک پُراسرار درویش کہہ رہا تھا کہ دوسروں کے چھابے میں ہاتھ ڈال کر باقی لوگوں نے جو کچھ کمایا، وہ شاہراہِ دستور کے کنارے بیٹھے، ضرورت سے زیادہ ’مقدس‘ بزرگانِ عالی مقام بھی کمالیں گے۔ یہ کہہ کر درویش اٹھا اور جنگل میں غائب ہوگیا۔

ہمارے وطن کی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ یہاں چائے کے ڈھابے سے لے کر ’عالی شان‘ اداروں میں بیٹھے لوگوں تک، ہر کوئی ’جس کا کام اسی کو ساجھے‘ والی کائناتی سچائی ازبر ضرور کرتا ہے، اس کی دوسروں کو نصیحت بھی کرتا ہے لیکن اپنی آنکھیں پوری شدت سے بند کرلیتا ہے کہ یہ اصول اس کے پیش نظر نہ آئے۔ وہ اپنے فرائض منصبی کے بجائے دوسروں کے فرائض منصبی سے چھیڑچھاڑ ہی کو آئینی تقاضا سمجھتا ہے۔ یہی جڑ ہے سارے مسائل کی، جو گزشتہ پون صدی میں اس قوم کو درپیش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کا ایک معتد بہ حصہ سوچنے لگا ہے کہ ہم نے مملکتِ خداداد حاصل کرلی لیکن کیا ہم اسے چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں؟

صرف ایک لمحے کے لیے سوچ لیجیے کہ اس قوم کا ہر فرد، دنیا کی اقوامِ دیگر کی طرح اپنے ہی شعبے میں مہارت حاصل کرنے اور بہتر سے بہترین کارکردگی دکھانے میں مصروف عمل ہوجائے تو اس قوم کے مستقبل کا کیا نظارہ ہو! صرف ایک لمحہ کے لیے سوچ لیجیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پنجاب حکومت اور تعلیم کے عالمی شہرت یافتہ ماہر سر مائیکل باربر کے درمیان مل کر کام کرنے پر اتفاق

وسط ایشیائی ریاستوں نے پاکستانی بندرگاہوں کے استعمال میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے، وزیراعظم پاکستان

حکومت کا بیرون ملک جاکر بھیک مانگنے والے 2 ہزار سے زیادہ بھکاریوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیصلہ

کوپا امریکا کا بڑا اپ سیٹ، یوراگوئے نے برازیل کو ہرا کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرلیا

ٹی20 کرکٹ سے ریٹائر بھارتی کپتان روہت شرما کیا ون ڈے اور ٹیسٹ کے کپتان برقرار رہیں گے؟

ویڈیو

پنک بس سروس: اسلام آباد کی ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کے لیے خوشخبری

کنوؤں اور کوئلہ کانوں میں پھنسے افراد کا سراغ لگانے کے لیے مقامی شخص کی کیمرا ڈیوائس کتنی کارگر؟

سندھ میں بہترین کام، چچا بھتیجی فیل، نصرت جاوید کا تجزیہ

کالم / تجزیہ

روس کو پاکستان سے سچا پیار ہوگیا ہے؟

مریم کیا کرے؟

4 جولائی: جب نواز شریف نے پاکستان کو ایک تباہ کن جنگ سے بچا لیا