جس طرح گزشتہ 75 سالوں سے پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے بالکل اسی طرح گزشتہ 3 سالوں سے پاکستان کرکٹ کی حالت بھی انتہائی پتلی ہوچکی ہے۔ جب بھی ٹیموں پر بُرا وقت آتا ہے کہ تو وہ ہوم سیریز میں کامیابیاں سمیٹ کر اعتماد بحال کرلیتی ہیں مگر ہمارے ساتھ تو المیہ یہ ہوا کہ پاکستان میں کھیلے جانے والے گزشتہ 8 میچوں میں ایک میچ میں بھی کامیابی نہیں ملی اور ان 8 میچوں میں 2 مقابلے بنگلہ دیش کے خلاف تھے اور اس نے بھی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمیں وائٹ واش کردیا۔
2 سال قبل جب انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تو انتہائی سکون اور اطمینان سے 0-3 سے ہمیں شکست دے دی۔ اس بار خیال تھا کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھ جائیں گے لیکن حال یہ ہوا کہ اس بار 3 میچوں کی سیریز کے پہلے ہی میچ میں اننگز اور 47 رنز سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ بات یہیں تک نہیں رکتی بلکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کے خلاف کسی ٹیم نے ایک اننگز میں 800 سے زائد رنز اسکور کیے اور پھر تاریخ میں ہی ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی ٹیم نے میچ کی پہلی اننگز میں 500 سے زائد رنز بنائے اور اسے اننگز سے شکست ہوگئی۔
یہ وہ سارے معاملات تھے جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے ہاتھ پیر پھولے اور ٹیم میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کا فیصلہ کرلیا۔ بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ سمیت 6 کھلاڑیوں کو ٹیم سے باہر کردیا۔ باقی سب تو ٹھیک ہے مگر بابر اعظم کو ڈراپ کرنے پر بورڈ پر خوب تنقید ہوئی، لیکن اس بار کرکٹ بورڈ کا نصیب اچھا رہا کہ بابر کی جگہ ٹیم میں آنے والے کامران غلام نے اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں سینچری اسکور کرلی اور ڈیبیو میں سینچری کرنے والے وہ 13ویں پاکستانی بن گئے۔
جب دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے ٹیم کا اعلان ہوا تو ٹیم میں صرف ایک فاسٹ بولر جبکہ 3 اسپنرز شامل کیے گئے۔ اس سلیکشن پر بھی خوب بات ہوئی لیکن بورڈ کا نصیب اس بار بھی اچھا ہوا کہ اسپنرز کا جادو سر چڑھ کر بولا اور پاکستان کے 366 کے جواب میں انگلینڈ کی ٹیم 291 رنز پر آؤٹ ہوگئی اور 10 کی 10 وکٹیں اسپنرز کے نام رہیں، لیکن اس پرفارمنس میں ہیرو ثابت ہوئے ساجد خان جنہوں نے 7 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔
The wicket that helped Sajid Khan to his second Test fifer! 🤩#PAKvENG | #TestAtHome pic.twitter.com/svRXOHT9g9
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) October 17, 2024
واضح رہے کہ 24 سال بعد کسی بھی پاکستانی آف اسپنر نے ہوم سیریز میں 5 سے زائد وکٹیں حاصل کی ہیں، اس سے قبل ثقلین مشتاق نے 2000 میں انگلینڈ کے خلاف ہی اننگز میں 8 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
ساجد خان کون ہیں؟
1993 میں خیبر پختونخوا میں پیدا ہونے والے ساجد خان نے اپریل 2021 میں زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا۔ کیریئر کا آغاز تو اچھا نہیں رہا کیونکہ اپنے پہلے ہی میچ میں انہیں کوئی بھی وکٹ نہیں مل سکی جبکہ سیریز کے دوسرے میچ میں بھی وہ صرف 2 وکٹیں ہی حاصل کرسکے۔
ساجد خان نے اب تک پاکستان کے لیے 8 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں 38 کی اوسط سے 25 وکٹیں لیں۔ 2021 میں میرپور کے میدان میں میزبان بنگلہ دیش کے خلاف کھیلے جانے والا میچ ان کے لیے شاید ہمیشہ یادگار رہے گا جس کی پہلی اننگز میں انہوں نے محض 42 رنز دے کر 8 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا جس کے سبب بنگلہ دیش کی پوری ٹیم 87 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی۔ ساجد خان نے دوسری اننگز میں بھی 4 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی اور اس کارکردگی کی بدولت پاکستان نے یہ میچ اننگز اور 8 رنز سے جیت لیا تھا اور ساجد خان کو میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا تھا۔
اس سیریز کے بعد آسٹریلوی ٹیم 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے لیے پاکستان آئی جس میں ساجد خان ناکام رہے اور صرف 4 وکٹیں ہی حاصل کرسکے جس کے بعد انہیں ڈراپ کردیا گیا۔
پھر پاکستان نے سری لنکا کا دورہ کیا تھا جس میں ساجد خان کو نظرانداز کرکے ایک بار پھر یاسر شاہ کو آزمایا گیا مگر یہ سیریز ان کی آخری سیریز ثابت ہوئی۔
اس کے بعد انگلینڈ نے پاکستان کا دورہ کیا، جس میں پاکستان کو 0-3 سے شکست تو ہوئی مگر ابرار احمد کی صورت ایک اچھا اسپنر ہمیں مل گیا جس نے اپنی پہلی ہی سیریز میں 17 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس کے بعد نیوزی لینڈ نے پاکستان کا دورہ کیا اور اس سیریز میں بھی ابرار احمد نے متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 11 وکٹیں لیں۔ تاہم اس میچ میں بھی پاکستان کو کوئی کامیابی نہیں مل سکی اور دونوں ہی میچ برابر ہوگئے۔
لیکن جب پاکستان دورہ آسٹریلیا پر گئی تو اس میں بھی ساجد خان کو نظر انداز ہی کیا گیا مگر ابرار احمد کی انجری اور نعمان علی کے آپریشن کے سبب انہیں سیریز کے دوران ہی بلوانا پڑا اور پھر تیسرے میچ میں موقع بھی ملا اور انہوں نے اس میں 3 وکٹیں حاصل کی تھیں۔ مگر یہ میوزیکل چیئر چلتی رہی اور بنگلہ دیش کے دورہ پاکستان میں ساجد خان ایک مرتبہ پھر ٹیم سے باہر ہوگئے اور اس بات کا شکوہ انہوں نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو میں بھی کیا تھا کہ انہیں بغیر وجہ بتائے ٹیم سے باہر کردیا گیا تھا۔
انگلینڈ کے خلاف بھی ساجد خان ٹیم کا حصہ نہیں تھے مگر پہلے ٹیسٹ میں بدترین شکست اور ابرار احمد کی خراب کارکردگی اور انجری نے پی سی بی کو مجبور کردیا کہ وہ ساجد خان اور نعمان علی کو ایک مرتبہ پھر موقع دیں۔
ساجد خان نے اپنے انتخاب کو بالکل درست ثابت تو کردیا مگر کیا وہ آگے بھی مستقل ٹیم کا حصہ رہیں گے، یہ بات تو پی سی بی چیئرمین ہی جانتے ہیں، کیونکہ سلیکٹرز کی اپنی مرضی اب شاید چلتی نہیں۔