پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکریٹری جنرل سیلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم سمٹ میں شرکت کرنے والے 2 ممالک نے پی ٹی آئی سے درخواست کی کہ آپ احتجاج نہ کریں، ان ممالک کے ساتھ ہمارے دور حکومت میں اچھے تعلقات تھے، ہم ان کو پاکستان کا خیرخواہ سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھین:پی ٹی آئی نے اپنے عام اراکان کو قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت سے روک دیا
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب میں سیلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ آئندہ پاکستان میں عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوگی، ہم نے ان ریاستوں سے آئندہ بھی معاملہ رکھنا ہے، ان ممالک کی درخواست کو ہم مسترد نہیں کرسکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب اگر چاہیں تو آنکھیں بند کرکے سرجھکا سکتے ہیں، جی حضوری ہم سب کرسکتے ہیں، ہم سب سینیٹر بھی بن جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان سے 3 اکتوبر کو ان سے آخری ملاقات ہوئی، پھر یہ کہا گیا کہ 19 اکتوبر سے پہلے عمران خان سے ملاقات نہیں ہوسکتی، نہ ان کی صحت کے بارے میں کچھ بتایا جائے گا، نہ کسی اور حوالے سے ان سے کوئی ملاقات ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی کا مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ، 18 اکتوبر کو ملک گیر احتجاج کا اعلان
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سے 8 اکتوبر کو میٹنگ طے تھی، جیل مینوئیل کے تحت ان کے خاندان کے افراد کی ان سے میٹنگ حق تھی، یہ طے شدہ میٹنگ منسوخ کردی گئی، ان کی ہمشیرہ کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
سیلمان اکرم راجا نے کہا کہ انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ انسانی بنیادوں پر عمران خان سے ان کی ہمشیرہ کی ملاقات کروائی جائے یا ان کے ذاتی معالج کو ان سے ملنے دیا جائے تاکہ کروڑوں پاکستانیوں کی تشویش ختم کی جاسکے، بدقسمتی سے عدالت نے ہماری درخواست رد کردی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت سے درخواست مسترد ہونے کے بعد پارٹی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اب ہم احتجاج کریں گے، قانونی راستہ اپنا چکے اور کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا، ہم عمران خان کو 16 دن ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، ہمیں عمران خان کی صحت کے حوالے سے فکر تھی۔
’ہم نے 11 اکتوبر کو فیصلہ کیا کہ ہم 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں احتجاج کریں گے، جس پر بہت سوالات اٹھائے گئے، سوشل میڈیا پر ایک بیانیہ بنایا گیا، ہم پر غداری کا الزام لگایا گیا، کس حد تک ان الزامات میں صداقت ہے، ان کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں:مجوزہ آئینی ترمیم: خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس، پی ٹی آئی کی عدم شرکت، مسودہ بھی پیش نہ کیا
پی ٹی آئی سیکیرٹری جنرل نے بتایا کہ ہم نے 11 اکتوبر کو فیصلہ کیا کہ ہم 15 اکتوبر کو اسلام آباد میں پرامن احتجاج کریں گے، ہم نے تخریب کی سیاست کبھی نہیں کی، پرامن احتجاج ہمارا حق ہے، اس حق کو جرم سمجھ لیا گیا، یہ کب سے جرم ہوگیا، یہ بنیادی انسانی حق ہے۔
انہوں نے کہا کہ 12 اور 13 اکتوبر کو انہیں مختلف علاقوں بشمول خیبرپختونخوا سے ایم پی ایز کی ٹیلی فون کالز آئیں، 70 سے 75 ایم پی ایز نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ اس وقت جو فسطائیت کا عالم ہے، ہمارے بے گناہ لوگ اٹھائے گئے ہیں تو اس وقت ہم اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتے کہ ہم اسلام آباد صحیح طریقے سے آسکیں، ہم روپوش ہیں اور گھر سے باہر نکلنے کی حالت میں نہیں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پی ٹی آئی مجوزہ آئینی ترمیم پر تجاویز دینے میں ناکام رہی، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ
سیلمان اکرم راجا نے کہا کہ اس کے باوجود ہم سمجھتے تھے کہ ہمیں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے، پھر ہمیں 2 مختلف دوست ممالک کی ایمبیسیز سے، جنہوں نے ایس سی او اجلاس میں شرکت کرنی تھی، درخواستیں موصول ہوئیں کہ آپ یہ احتجاج نہ کیجیئے گا، یہ وہ دوست ممالک تھے جن کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کے تعلقات اچھے تھے، ہم ان ممالک کی درخواست کو بہ جنبش قلم رد نہیں کرسکتے تھے کیوں کہ ہم نے ان سے مستقبل میں بھی اچھے تعلقات رکھنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ احتجاج مؤخر کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی بالخصوص احتجاج نہ کرنے کی درخواست کی، ہم سمجھتے کہ مولانا فضل الرحمان اس وقت جو ثابت قدمی دکھا رہے ہیں وہ سنہری حروف میں لکھی جائے گی، اس لیے ان کی درخواست پر بھی غور کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ پھر 14 اکتوبر کو مجھ سے اور پارٹی کی دیگر لیڈرشپ سے حکومت کے رابطے ہوئے اور کہا گیا کہ آپ ڈاکٹر عاصم یوسف کو بلوا لیجیئے، ان کی عمران خان سے ملاقات کروا دی جائے گی، ڈاکٹر عاصم یوسف ملک سے باہر تھے، میں نے ان کو فون کیا تو وہ فورا اگلی فلائیٹ سے پاکستان آگئے۔