موسمیاتی تبدیلی ہے کیا بلا؟ ابھی ہم پوری طرح نہیں سمجھ پائے۔ لیکن اس بلا نے اپنے اثرات دکھانا شروع کردیے ہیں۔ ہم اسے تب ہی سمجھیں گے جب یہ اپنے تمام تر نقصانات کے ساتھ سامنے آئے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومت بھی اس اصطلاح کا استعمال تو بار بار کر رہی ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے عملی طور پر کوئی سرگرمی نظر نہیں آرہی۔
عوام کو اس حوالے سے جو کچھ سمجھانا اور بتانا چاہیے، وہ نہیں ہورہا۔ اور سرکاری سطح پر اقدامات کا جائزہ لینا ہو تو خیبر پختونخوا حکومت کی ویب سائیٹ دیکھ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ ہماری حکومت کس حد تک سنجیدہ ہے۔
صوبائی حکومت کی ویب سائیٹ پر دو قسم کے اقدامات کا تذکرہ ہے۔ پہلا ‘بلین سونامی ٹری منصوبہ’ اور دوسرا منصوبہ ہے پشاورکا ‘چڑیاگھر’۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے کوئی پلاننگ ہے نہ کسی باقاعدہ ادارے کا ڈھانچہ۔
ماحول اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے صوبائی حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے مرحلے میں اس محکمے کا وزیر ایک ایسے شخص کو بنایا گیا جو اس کے ابجد سے بھی واقف نہیں تھے۔ اور جب ایک نشریاتی ادارے کے ساتھ گفتگو میں جو انہوں نے گل افشانی کی وہ باقاعدہ ایک لطیفہ ہے۔ اس پر جب ردعمل سامنے آیا تو یہ ذمہ داری ایک مشیر کے کندھوں پر ڈال دی گئی۔
اس تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف آنا ضروری ہے تاکہ اس بحث کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اس حوالے سے حکومت اور اداروں کو کوسنے کے بجائے ماہرین اور ریسرچرز سے ملتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم نے زرعی یونیورسٹی پشاور کا رخ کیا۔ جہاں وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جہان بخت سے ملاقات کی۔ اور ان کے سامنے اپنے سوالات رکھے۔ ڈاکٹر جہاں بخت موسمیاتی تبدیلی پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس حوالے سے اپنی جامعہ میں کچھ ابتدائی اقدامات بھی کر لیے ہیں۔
ڈاکٹر جہاں بخت نے بتایا کہ کلائمیٹ چینج کے زیر اثر صرف ہماری زراعت ہی نہیں بلکہ لائیو سٹاک کا شعبہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ ان کے ساتھ اس نشست میں ہمیں جو معلومات حاصل ہوئیں، وہ ہوش ربا ہیں۔ حاصل ملاقات یہ رہی کہ سب بڑا چیلنج ہمیں پانی کی کمی کی صورت میں پیش آرہا ہے اور اگلے سال یعنی 2025 کے آخر تک ہم ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے، جن کو پانی کمی یا سطح آب کے نیچے چلے جانے کا مسئلہ درپیش ہے۔ 1972 میں ہمارے پاس موجود ذخائر 7500 کیوبک تھا اور اب یہ مقدار 1150 تک آگئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ ظاہر ہے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہیں۔ لیکن ہماری لاعلمی اور ناسمجھی کے زیر اثر ہم پانی کے ضیاع کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم کپڑے دھونے، فرش صاف کرنے، نہانے اور پھر گاڑیاں دھونے پر بے دردی سے پانی بہا رہے ہیں۔ ہمیں احساس ہی نہیں کیونکہ اس وقت ہمیں سستا پانی میسر ہے، پاکستان میں 2 ڈالر میں فی کیوبک میٹر پانی میسر ہے جب کہ برادر اسلامی ملک ملائشیا میں اتنے پانی کی قیمت اس وقت 56 ڈالر ہے۔
ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں، بارش کا پانی سیلاب کی شکل میں سمندر برد ہورہا ہے۔ جب کہ ہمارے پانی کا 78 فیصد انحصار بھارتی دریاوں یا ذخائر پر ہے جو ہمارا دشمن ہے اور جب چاہے ہمارے خلاف اسے بطور ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
ایک اور مسئلہ پانی کی آلودگی بھی ہے خیبر پختونخوا میں کالام سوات سے لے کر چارسدہ تک دریاوٗں میں سیوریج کا پانی جارہا ہے۔ جس سے انسانی صحت کے ساتھ ساتھ آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ پھر ہماری سیمنٹ اور کنکریٹ سے محبت بھی ایک وجہ ہے۔ گلیاں اور سڑکیں پکی ہورہی ہیں جب کہ زرعی زمینوں پر ہاوٗسنگ سکیمیں بن رہی ہیں۔ زمین کے پانی جذب کرنے کی صلاحیت ختم ہورہی ہے جس کا نتیجہ اربن فلڈنگ کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ پشاور شہر خیبرپختونخوا کا دارالحکومت جو کبھی پھولوں کا شہر تھا اور ارد گرد کے دیہات میں تازہ پھلوں کے باغات پھیلے ہوئے تھے، اب وہ باغات تقریباً ختم ہیں اور انجام کار پشاور میں پانی کی زیر زمین سطح 60 فٹ سے بڑھ کر 170 فٹ ہو گئی ہے۔
اس کے علاوہ موسمیاتی حدت کی وجہ سے چترال سال بھر سیلاب کی زد میں رہتا ہے۔ موسمی تغیر کے تحت بارشوں کا نظام بھی متاثر ہے جس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔
زرعی یونیورسٹی کے ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیں اب تبدیل ہوتے موسم کے مطابق فصل کی بوائی کرنی ہے اور ساتھ ساتھ جدید دور کے سائنسی تحقیق سے استفادہ کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے جامعہ نے مکئی اور دیگر اجناس کے بیج تیار کر لیے ہیں جب کہ حیوانات کے شعبے میں تجربات جاری ہیں۔ تاہم کسانوں اور کاشتکاروں کو پرانے طریقہ کار سے نکلنے کے لیے تیار کرنا ہوگا۔ اب وقت اور موسم کے تقاضوں کے مطابق بیجوں کا انتخاب بھی کرنا ہے۔ اور پانی کے استعمال کے لیے بھی ڈرپ ایری گیشن اور دیگر ذرائع اختیار کرنے ہونگے جس کے لیے سرکاری سرپرستی، بیداری اور آگاہی مہم چلانا ضروری ہے۔