44 ماہ، یعنی ساڑھے 3 سال اور 8 ٹیسٹ میچوں کے بعد بالآخر پاکستان کرکٹ ٹیم نے گھر میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کرلی۔ آخری مرتبہ فروری 2021 میں جنوبی افریقہ کو شکست دی تھی اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
دسمبر 2022 میں انگلینڈ نے 0-3 سے ہرایا تو جنوری 2023 میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلی جانے والی 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز بے نتیجہ رہی اور اس کے بعد ستمبر 2024 میں بنگلہ دیش کے خلاف وائٹ واش کی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پورے عرصے میں ہم نے چیئرمین پی سی بی بدل لیے، کپتان بدل لیے، ٹیم بدل لی مگر نتائج بدلنے کا نام تک نہیں لے رہے تھے۔
اب جب پھر انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں بدترین شکست کا سامنا ہوا تو یوں لگا جیسے ایک بار پھر جیت کہیں بہت دُور چلے گئی ہے، شاید ایک بار پھر ہمیں فتح کے حصول کے لیے مزید انتظار کرنا ہوگا، لیکن کچھ اچھے اور بروقت فیصلوں نے ہمیں مزید ذلت سے بچا لیا۔
دوسرے ٹیسٹ کے لیے پاکستان کرکٹ ٹیم میں بڑی تبدیلیوں کا فیصلہ ہوا، بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی اور نسیم شاہ سمیت 6 کھلاڑیوں کو ٹیم سے نکال دیا گیا، اس فیصلے پر خوب تنقید بھی ہوئی لیکن اچھا کام یہ ہوا کہ جن جن کھلاڑیوں کو اس میچ میں موقع ملا انہوں نے اپنی سلیکشن کو بالکل ٹھیک ثابت کیا۔
بابر اعظم کی جگہ اپنا ڈیبیو کرنے والے کامران غلام نے پہلی ہی اننگز میں سینچری اسکور کرکے سب کی توجہ حاصل کرلی، اور ایسا کرنے والے وہ 13ویں پاکستانی بھی بن گئے۔ اس کے علاوہ، کارکردگی دکھانے کے باوجود ٹیم سے باہر ہونے والے ساجد خان اور نعمان علی کو ایک بار پھر موقع ملا تو انہوں نے اسے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور پاکستان کی جیت میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ کرکٹ کی تاریخ میں چھٹی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی ٹیم کی تمام 20 وکٹیں اسپنرز نے لی ہوں۔ نعمان علی نے میچ میں 11 وکٹیں حاصل کیں تو ساجد خان 9 وکٹیں لے سکے۔
لیکن اس جیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے، نہیں ایسا بالکل نہیں، بلکہ بہت کچھ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو کپتان شان مسعود کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کب تک ٹیم پر بوجھ بنے رہیں گے؟ ہر کچھ عرصے بعد ایک سینچری اسکور کرکے لمبے عرصے تک خاموش رہنے والا سلسلہ اب رکنا چاہیے۔ ویسے بھی شاید یہ ان کے پاس آخری سیریز ہے، اگر تیسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو ناکامی ہوتی ہے یا خود شان مسعود اچھا کھیل پیش نہیں کرپاتے تو شاید کرکٹ بورڈ ان کے حوالے سے کوئی فیصلہ اب کر ہی لے۔
اس میچ میں کامیابی نے ہمیں یہ پیغام بھی دیا کہ بڑے یا چھوٹے ناموں سے کامیابی کا تعلق اتنا گہرا نہیں جتنا کھلاڑیوں کی کارکردگی سے ہے۔ یہ ٹیم نسبتاً کم تجربہ کار تھی، مگر جب کھلاڑیوں نے ٹیم ورک کا مظاہرہ کیا تو نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ لیکن ایک مسئلہ اب یہ بھی ہے کہ جن کھلاڑیوں نے اس میچ میں اچھا کھیل پیش کیا وہ کب تک ٹیم کا حصہ رہیں گے؟ کیونکہ ماضی میں تو یہی ہوتا رہا ہے کہ اچھی پرفارمنس کے باوجود ٹیم میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ۔
تیسرا ٹیسٹ اور آنے والی اہم ترین سیریز صرف کھلاڑیوں کا امتحان نہیں بلکہ کرکٹ بورڈ کا بھی امتحان ہے۔ کھلاڑیوں کو تو اچھا کھیل پیش کرنا ہی ہے، اس کے علاوہ ان کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں لیکن بورڈ کو بھی مستقل مزاجی کی پالیسی اپنانی ہوگی۔ جن کھلاڑیوں نے موقعے سے فائدہ اٹھایا ہے ان پر اعتماد کرنا ہوگا، انہیں یہ یقین دلانا ہوگا کہ وہ ٹیم کے ساتھ رہیں گے، انہیں پورے مواقع دیے جائیں گے، اگر ماضی کی طرح ہر میچ میں کھلاڑی اور ہر سیریز میں سلیکشن کمیٹی تبدیل ہوتی رہی تو یہ جان لیجیے کہ ساڑھے 3 سال بعد ملنے والی کامیابی اگلے کئی سال تک واحد کامیابی بھی ہوسکتی ہے۔
راولپنڈی ٹیسٹ انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے، اگرچہ ٹیسٹ چیمپیئن شپ سے تو ہم باہر ہوگئے ہیں مگر کھلاڑیوں کے مورال اور کھوئی ہوئی عزت کو حاصل کرنے کے لیے سیریز کی کامیابی ضروری ہے۔
ہمیں اب یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ فاسٹ بولنگ کے مقابلے میں اسپنرز زیادہ اچھا کھیل پیش کررہے ہیں تو اب وکٹ بنانے کے معاملے میں بھی اس پہلو کو یقینی طور پر مدنظر رکھنا چاہیے۔ یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ مخالف ٹیم اب کیا کرے گی یا کیا سوچے گی، سوچنے کا کام یہ ہے کہ اپنے کھلاڑیوں کو ہوم ایڈوانٹیج سے کس طرح مستفید کیا جاسکتا ہے۔